تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کرلے اور مہلت مانگے، اور اس تاریخ پر ادائیگی کا وعدہ کرے، جس وقت پیسہ پاس ہونے کا غالب گمان ہو، اور جس کے پاس مال موجود ہو فوراً قرض خواہ کا حق ادا کردے، بالکل ٹال مٹول نہ کرے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ یعنی جس کے پاس ادائیگی کے لیے مال موجود ہو، اس کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح) اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے خاص تنبیہ ہے جو ادائیگی کا انتظام ہوتے ہوئے صاحب حق کو آج کل پر ٹالتے رہتے ہیں، اورجھوٹے وعدے کرکے ٹرخاتے رہتے ہیں، ایسے جھوٹے وعدے کرنے والے کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم قرار دیا ہے۔مسلمان بھائی کی مصیبت پر خوش ہونے کی ممانعت : (۱۹۰) وَعَنْ وَاثِلَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاََتُظْھِرِ الشَّمَاتَۃَ لِاَخِیْکَ فَیَرْحَمُہُ وَیَبْتَلِیْکَ ’’حضرت واثلہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی ظاہر نہ کر، (ممکن ہے) اس کے بعد اللہ اس پر رحم فرمادے اور تجھے مبتلا فرمادے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۴۱۴، از ترمذی)تشریح : اس حدیث میں ایک اہم مضمون ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ کہ جب کسی مسلمان کو مرد ہو یا عورت کسی طرح کے دکھ، تکلیف یا نقصان و خسارہ میں مبتلا دیکھو تو اس پر کبھی خوشی کا اظہار مت کرو، کیوں کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ تم ہمیشہ مصیبت سے محفوظ رہ جائو، یہ بہت ممکن ہے کہ تم نے جس کی مصیبت پر خوشی کا اظہار کیا ہے، اللہ پاک اس کو اس مصیبت سے نجات دے دے اور تم کو اس مصیبت میں مبتلا کردے، اور یہ محض ایک فرضی بات نہیں ہے، بلکہ عموماً دیکھنے میں آتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے کہ جب کسی کے دکھ، مصیبت، تکلیف پرکسی نے خوشی کا اظہار کیا یا کسی کے اعضاء کا مذاق بنایا، کسی کی کوئی نقل اتاری تو خوشی ظاہر کرنے والا، مذاق اڑانے والا اور نقل اتارنے والا خود ہی اسی مصیبت اور عیب اور برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے، جو دوسرے میں تھا، اگر کسی شخص میں کوئی عیب ہے دینی و دنیاوی تو اس پر خوش ہونا یا طعنہ کے طرز پر اس کو ذکر کرنا اور بہ طور عار اور عیب کے اس کو بیان کرنا ممنوع ہے، ہاں اگر اخلاص کے ساتھ نصیحت کے طور پر خیر خواہی کے ساتھ نصیحت کرے تو یہ اچھی چیز ہے، لیکن حق گوئی کا بہانہ کرکے یا نہی عن المنکر کا نام رکھ کر طعنہ دینا اور عیب لگانا اور دل کے پھپھولے پھوڑنا درست نہیں ہے، مخلص کی بات ہمدردانہ ہوتی ہے اور نصیحت کا طرزاورہی ہوتا ہے، تنہائی میں سمجھایا جاتا ہے، رسواکرنا مقصود نہیں ہوتا، اورجہاں نفس کی آمیزش ہو اس کا طرز اورلب و لہجہ دل