تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
درحقیقت اسلام عدل و انصا ف کا مذہب ہے۔ کفر کی وجہ سے جو مذہبی دشمنی ہو اس کے ہوتے ہوئے ماں باپ کی خدمت اور مالی امدادکا بھی سبق دیتا ہے۔ ماں باپ کے کہنے سے کفر و شرک اختیار کرنا یا کوئی دوسرا بڑا گناہ کرنے کا تو اختیار نہیں ہے مگر ان کی خدمت کرنا اور ضرورت مند ہوں تو ان پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ ماں باپ کافر ہوں، قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ {وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ}1 (1 لقمان: ۱۵ اگر وہ دونوں (ماں باپ) تجھے مجبور کریں اس بات پر کہ تومیرے ساتھ ان چیزوں کو شرک کرے جن کا تجھے علم نہیں تو ان کی فرماں برداری نہ کرنا اور ان کے ساتھ دنیا میں اچھے طریقے سے گزارہ کرنا اور اس کی راہ پر چلنا جو میری طرف رخ کرے۔ ماں باپ کا بڑا حق ہے مگر آج کل کے لڑکے لڑکیاں ایسے ہوگئے ہیں کہ شادی ہوتے ہی ماں باپ سے اس طرح قطع تعلق کرلیتے ہیں کہ جیسے جان پہچان ہی نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔اپنی اولاد پر خرچ کرنے کا ثواب : ۳۹۔ عَنْ اُمِّ سَلِمَۃَ ؓ قَالَتْ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِلِیْ اَجْرٌ اِنْ اُنْفِقْ عَلٰی بَنِیْ اَبِیْ سَلَمَۃَ اِنَّمَا ھُمْ بَنِیَّ فَقَالَ اَنْفِقِیْ عَلَیْھِمْ فَلَکِ اَجْرُمَا اَنْفَقْتِ عَلَیْھِمْ۔ (رواہ البخاری) حضرت اُمِّ سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ کیا مجھے ثواب ملے گا اگر (اپنے پہلے شوہر) ابوسلمہ ؓ کے بچوں پر خرچ کروں کہ وہ تو میری ہی اولاد ہے؟ (کیا اپنی اولاد پر خرچ کرنے میں بھی اجر و ثواب ملتا ہے؟) آں حضرتﷺ نے فرمایا کہ ان پرخرچ کرتی رہو، تم کو ان پر خرچ کرنے کا اجر ملے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح: ص ۱۷۰ بحوالہ بخاری) تشریح: حضرت اُمِّ سلمہ ؓ بھی حضور اقدسﷺ کی اہلیہ ہیں، ان کی روایت کی ہوئی سیکڑوں حدیثیں کتابوں میں ملتی ہیں ۔ انھوں نے بھی علم دین خوب پھیلایا، ان کا نام ہند تھا، ان کے پہلے شوہر ابوسلمہ ؓ تھے۔ دونوں میاں بیوی ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ ہی میں مسلمان ہوگئے تھے۔ اسلام کی راہ میں دونوں نے بہت تکلیفیں اٹھائیں، پہلے دونوں نے اسلام کی خاطر حبشہ کو ہجرت کی، بعد میں مدینہ منورہ ہجرت کی، لیکن اس مرتبہ دونوں ایک ساتھ ہجرت نہ کرسکے، اس وقت مکہ معظمہ میں کافروں کا زور تھا۔ جب دونوں میاں بیوی ہجرت کے لیے نکلے تو حضرت اُمِّ سلمہ ؓ کو میکہ والوں نے نہ جانے دیا۔ اس کے ایک سال بعد وہ ہجرت کرسکیں، ان کا ایک بچہ سلمہ نامی تھا اسی کی وجہ سے ان کو اُمِّ سلمہ (سلمہ کی ماں) اور بچے کے باپ کو ابوسلمہ(سلمہ کا باپ) کہتے تھے۔ عرب میں اس کا بہت دستور تھا، اس کو کنیت کہتے تھے، بعض مرتبہ اصل نام بھول بھلیاں ہوجاتا تھا اور کنیت ہی سے آدمی کو جانتے تھے۔ ۴ ہجری میں جب ان کے شوہر ابوسلمہ ؓ وفات پاگئے تو حضور اقدسﷺ نے عدت گزر جانے کے بعد ان سے نکاح فرمالیا۔ جب یہ آپ کے