تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
البرامکہ وکانوا عبدۃ النار فلما اسلموا ادخلوا فی الاسلام مایموہون انہ من سنن الھدی ومقصود ھم عبادہ النیران حیث سجدوامن المسلمین الی تلک السراج) سے شروع ہوا ہے۔ یہ لوگ پہلے آتش پرست تھے۔ جب اسلام کے نام لیوا بنے تو انھوں نے اس وقت بھی یہ رسم جاری رکھی۔ تاکہ مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتے وقت آگ سامنے رہے۔ کیسے افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں نے آتش پرستوں کی چیز اپنالی۔ عجیب بات ہے کہ آسمان سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور نیچے رحمتوں کا مقابلہ آتش بازی اور فضول خرچی اور طرح طرح کے گناہوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہوتا ہے۔ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور یہاں مانگنے کے بجائے فسق و فجور اور کھیل کود میں گزارتے ہیں۔مساجد میں جمع ہونا : رات کو جاگنے کے لیے اگر اتفاقاً دوچار آدمی مسجد میں جمع ہوگئے اور اپنی نماز و تلاوت میں مشغول رہے تو اس میں مضائقہ نہیں، لیکن بعض شہروں میں اس کو بھی اس حد تک پہنچادیا گیا ہے کہ اس کو روکنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً بلا بلا کر اہتمام سے لوگوں کو جمع کرتے ہیں۔ شبینہ کرتے ہیں، جس میں نوافل باجماعت پڑھے جاتے ہیں جوناجائز ہے۔ مرد و عورت اور بچے آتے ہیں اور شور و شغب ہوتا ہے۔ بے پردگی ہوتی ہے۔ حالاں کہ عورتوں کو فرض نماز کے لیے بھی مسجد جانے سے روکا گیا ہے۔ پھر نفلیں پڑھنے کے لیے جانے کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے۔ حضرات صحابہ کرام ؓ جن سے زیادہ عبادت کا کوئی شوقین نہیں ہوسکتا۔ کبھی اس طرح جمع نہ ہوتے تھے۔ غفلت اور جہالت کی وجہ سے بہت سی باتیں آداب مساجد کے خلاف سرزد ہوتی ہیں اور ملائکۃ اللہ کی ایذا کا باعث ہوکر بجائے نفع کے نقصان و خسران کا سبب بن جاتی ہیں، ان سب بدعات و محرمات میں مشغول ہونے سے بہتر ہے کہ آدمی پیر پھیلا کر سوجائے۔ ملائکہ رسم حلوہ: اس کو ایسا لازم کرلیا گیا ہے کہ اس کے بغیر شب برات ہی نہیں ہوتی۔ فرائض و واجبات کے ترک پر اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا حلوہ نہ پکانے پر ہوتا ہے اور جو شخص نہیں پکاتا اس کو کنجوس، وہابی، بخیل وغیرہ کے القاب دیئے جاتے ہیں۔ ایک غیر ضروری چیز کو فرض واجب کا درجہ دینا گناہ ہے اور بدعت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہﷺ کے جب دندان مبارک شہید ہوئے تو آپ نے حلوہ نوش فرمایا تھا۔ اس کی یادگار ہے اور کوئی کہتا ہے کہ حضرت حمزہ ؓ اس تاریخ میں شہید ہوئے تھے ان کے لیے ایصال ثواب ہے۔ اول تو سرے سے یہی غلط ہے کہ آپ کے دندان مبارک ان دنوں میں شہید ہوئے تھے یا حضرت حمزہ ؓ اس تاریخ میں شہید ہوئے، کیوں کہ دونوں حادثے ماہ شوال میں واقع ہوئے تھے۔ پھر اگر بالفرض شعبان میں ہونے کا ثواب خواہ مخواہ مان بھی لیا جائے تب بھی اس قسم کی