تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سے نکاح کیا تو اب جب تک یہ عورت اس کے نکاح میں رہے بلکہ اگر اس نے طلاق دے دی تو طلاق کے بعد جب تک عدت کے اندر رہے گی اس عورت کی بہن سے اس کا نکاح نہیں ہوسکتا، اگر نکاح کرلیا تو شرعاً اس نکاح کا کوئی اعتبار نہیں۔ قرآن مجید میں {وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ }1 (1 النساء: ۲۳) فرما کر یہی مسئلہ بتایا گیا ہے جس طرح دو بہنیں آپس میں ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں، اسی طرح پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی بھی ایک مرد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی ہیں۔ اگر کوئی عورت کسی مرد کے نکاح میں ہو تو جب تک یہ اس مرد کے نکاح میں رہے گی اس کی بہن اور اس کی خالہ سے اور بھانجی سے اور پھوپھی سے اور بھتیجی سے اس مرد کا نکاح درست نہ ہوگا، اگر نکاح کرلیا تو شرعاً معتبر نہ ہوگا۔ حدیث ۱۴۷ میں اسی کو بتایا گیا ہے، نیز ان میں سے اگر ایک کو طلاق دے دی تو دوسری سے نکاح اس وقت تک درست نہ ہوگا جب تک کہ طلاق پانے والی عورت کی عدت نہ گزر جائے۔۶۔ مرد کے لیے مقررہ تعداد سے زائد نکاح درست نہیں : مرد کے لیے شریعت نے بیویوں کی تعداد مقرر کی ہے، بیک وقت چار عورتوں سے ایک مرد کو نکاح کرنا درست ہے۔ مگر اس کی اجازت اس وقت ہے جب کہ ہر بیوی کے حقوق شریعت کے مطابق برابری کے ساتھ ادا کرے، بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ کوئی مرد نکاح نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ اگر چار میں سے چوتھی کو طلاق دے دی تو جب تک اس کی عدت نہ گزر جائے اس کے بدلہ پانچویں عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ غیلان بن عبداللہ ثقفیؓ کے نکاح میں قبول اسلام سے پہلے دس بیویاں تھیں۔ جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو سب بیویاں بھی مسلمان ہوگئیں، حضور اقدس ﷺ کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا چار کو رکھ لو باقی چھوڑدو۔ (مشکوٰۃ) یہ سب نکاح چوں کہ زمانہ جاہلیت میں ہوئے تھے اس لیے ایسا فیصلہ صادرفرمایا۔ مسلمان ہوتے ہوئے کوئی شخص اگر چار عورتیں نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں سے نکاح کرلے تو پانچواں نکاح منعقد ہی نہ ہوگا۔دودھ کا رشتہ صرف دو سال کی عمر کے اندر دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے: ۱۴۸۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ ؓ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ دَخَلَ عَلَیْھَا وَعِنْدَھَا رَجْلٌ فَکَانَّہٗ کَرِہَ ذٰلِکَ فَقَالَتْ اِنَّہٗ اَخِیْ۔۔۔۔۔ فَقَالَ اَنْظُرْنَ مَنْ اِخْوَانُکُنَّ فَاِنَّمَا الرَّضَاعَۃُ مِنَ الْمَجَاعَۃِ۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ زنان خانہ میں تشریف لائے۔ اس وقت میرے پاس ایک آدمی تھا، میں نے ایسا محسوس کیا کہ اس کا گھر میں ہونا آپ کو ناگوار ہوا۔ میں نے (دل کا خلجان دور کرنے کے لیے) عرض کیا کہ یہ شخص میرا (دودھ شریک) بھائی