تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور دوسرے سے زاد راہ باندھ دو، چناں چہ انھوں نے ایسا ہی کیا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے عوض اللہ جل شانہٗ تمہیں جنت کے دو پٹکے عنایت فرمائے گا۔ (الاصابہ) حضرت اسماءؓ کی پیدائش ہجرت سے ۲۷ سال پہلے مکہ میں ہوئی تھی۔ ۱ ہجری میں مدینہ منورہ کو ہجرت کی، وہاں پہنچ کر حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ پیدا ہوئے۔ آخری عمر میں مکہ میں قیام فرمایا۔ پھر ۷۳ ہجری میں وہیں وفات پائی۔ اپنے لڑکے حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ کے واقعہ شہادت کے بعد دس بیس دن زندہ رہ کر دنیائے فانی کو چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ سو سال کی عمر تھی مگر نہ کوئی دانت ٹوٹا تھا اور نہ عقل میں کسی طرح کا فتور آیا تھا۔ؓ و ارضا ہاورضی عن زوجہا واولادہا۔ (الاستیعاب والاصابہ)عقیقہ کا بیان : (۱۵۸) وَعَنْ اُمِّ کُرْزٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْھَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اَقِرًّوْا الطَّیْرَ عَلٰی مَکَنَاتِھَا قَالَتْ وَسَمْعَتُہٗ یَقُوْلُ عَنِ الْغُلاََمِ شَاتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ وَلاََ یَضُرُّکُمْ ذُکْرَانًاکُنَّ اَوْ اِنَاثًا۔ (رواہ ابودائود) ’’حضرت ام کرزؓ نے بیان فرمایاکہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ پرندوں کو ان کی جگہوں پر رہنے دو (اور ان کو اڑا کر بدفالی نہ لو) اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا کہ عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ذبح کی جائے اور اس میں تمہارے لیے کوئی نقصان کی بات نہیں کہ عقیقہ میں ذبح کیے جانے والے جانور نر ہوں یا مادہ ہوں۔‘‘ (مشکوٰۃالمصابیح ص ۳۶۲ بحوالہ ابودائود) تشریح: اس حدیث میں اول تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بدفالی سے منع فرمایا جو مخصوص طریقہ پر زمانہ نبوت سے پہلے عرب میں رواج پائے ہوئے تھی۔زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جانور اڑا کر بدفالی لیتے تھے : زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ جب کسی کام کے لیے نکلتے تو درخت پر بیٹھے ہوئے جانوروں کو اڑا دیتے تھے اور دیکھتے تھے کہ جانور کدھر کو اڑا، اگر دائیں جانب کو اڑا تو اس کو مبارک اور سعد جانتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ جس کام کے لیے ہم نکلے ہیں وہ ہوجائے گا اور اگر جانور بائیں جانب کو اڑ جاتا تو اس کو منحوس اور نامبارک جانتے تھے اور یہ سمجھ کر کہ ہمارا کام نہیں ہوگا، اس کام سے رک جاتے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جانوروں کو ان کی جگہوں پر بیٹھا رہنے دواور فال کے لیے ان کو مت اڑائو۔