تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک اور حدیث میں یہ فرمایا کہ انسان کی ہر بات اس کے لیے وبال ہے، نفع دینے والی نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ امر بالمعروف کرے۔ (یعنی نیکیوں کا حکم دے) یا نہی عن المنکر کرے (یعنی برائیوں سے روکے) یا اللہ کا ذکر کرے۔ (ترمذی) اس سے معلوم ہواکہ جس بات کے کرنے میں گناہ نہیں ہے اور ثواب بھی نہیں جس کو کلام مباح کہتے ہیں اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ بھی وبال کا باعث ہے، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جتنی دیر میں وہ بات کی ہے اتنی دیر میں ذکر اور تلاوت اور درود شریف میں مشغول ہوکر جو ثواب اور بلند درجات حاصل ہوسکتے تھے ان سے محرومی ہوگئی، دوسرا نقصان یہ ہے کہ ذکر اللہ کے علاوہ زیادہ بولنے سے دل میں سختی آجاتی ہے اور تجربہ کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے دل کی نورانیت ختم ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی تجربہ کی بات ہے کہ زیادہ بولنے والا، اگر جائز بات بھی کررہا ہو تو بولتے بولتے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی اس کی زبان سے تھوڑی ہی دیر میں ایسی باتیں نکلنی شروع ہوجاتی ہیں جو گناہ کی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً کوئی جھوٹی با ت نکل جاتی ہے اور یہ تو بہت زیادہ ہوتاہے کہ باتیں کرتے کرتے خواہ مخواہ کسی کی غیبت شروع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا خیریت اسی میں ہے کہ انسان خاموش رہے، یا اللہ کا ذکر کرے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہوگئی تو ایک شخص نے کہا کہ تجھے جنت کی خوشخبری ہے، یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم جنت کی خوشخبری دے رہے ہو، حالاں کہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس نے کوئی لایعنی بات کی ہوگی، یا ایسی چیز خرچ کرنے سے کنجوسی کی ہوگی، جس کے خرچ کرنے سے نقصان نہیں ہوتا (ترمذی) مثلاً علم دین سکھا دینا، زکوٰۃ دینا وغیرہ۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَنْ صَمَتَ نَجَا۔ (بخاری) ’’یعنی جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ ‘‘ یعنی دنیا اور آخرت میں ان آفات اور بلیات سے محفوظ رہا جو زبان سے متعلق ہیں۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوْلَیَصْمُتْ۔ ’’یعنی جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ خیر کی بات کرے(اس میں ہر نیک بات آگئی جس میں ثواب ہو) یا خاموش رہے۔‘‘ (بخاری و مسلم) حضرت عمران بن خطانؓ نے بیان فرمایا کہ میں حضرت ابوذرؓ کی خدمت میں آیا، وہ مسجد میں بالکل تن تنہا تشریف فرما تھے، میں نے عرض کیا۔ اے ابوذر یہ تنہائی کیسی ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے