تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی گنجائش دیکھنا چاہیے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ پیسہ پاس نہ ہو، یا کم ہو تو سود پر رقم لے کر بنوالیتی ہیں، شوہر کے پاس نہیں ہوتا تو اسے مجبور کرتی ہیں کہ کہیں سے رقم لاکر دے، اگر وہ نیک آدمی ہے، رشوت سے بچتا ہے تو اسے کچوکے دے دے کر مجبور کرتی ہیں کہ رشوت لے اور زیور بناکردے، پھر یہ بھی سب عورتیں جانتی ہیں کہ زیور گھر میں ہروقت نہیں پہنتی بلکہ اس کی ضروریات، بیاہ، شادی میں شریک ہونے یا اور کسی طرح کی مجلسوں میں جانے کے لیے ہوتی ہے، اس میں چونکہ شان جتانے کے اور دکھاوا کرنے کی نیت ہوتی ہے۔ اس لیے جس شادی میں شریک ہونا ہے یا جس محفل میں جانا ہے اس کی تاریخ آنے تک بنوا کر چھوڑتی ہیں، پھر یہ مصیبت ہے کہ پرانا ڈیزائن نہیں چلتا، معاشرہ میں جس نئے ڈیزائن کے زیور آجائیں اور پرانے ڈیزائن تڑوا کر نئے ڈیزائن کے مطابق بنوانے کی فکر کی جاتی ہے اور اس میں بھی وہی ریاکاری والا نفس کا چور موجود ہوتا ہے۔ کپڑوں کے بارے میں بھی یہی بات ہے کہ کئی جوڑے کپڑے رکھے ہیں۔ لیکن مجلسوں اور محفلوں میں جانے کے لیے نئے لباس کی ضرورت سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ جوڑے تو کئی مرتبہ پہنے جاچکے ہیں۔ ان ہی میں سے پہن کر جائیں گی تو عورتیں نام دھریں گی اور کہیں گی کہ فلانی کے پاس تو یہی دو جوڑے رکھے ہیں ان کو ادل کر بدل کر آجاتی ہیں، اس میں بھی وہی دکھاوے کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔لباس اور زیور کی تیاری سے پہلے اور بعدمیں : لباس و زیور تیار کرنے سے پہلے حلال مال دیکھنا چاہیے اور حلال مال موجو دہو تو گنجائش دیکھنا چاہیے اور جب زیور کپڑا بن جائے تو اس کے استعمال کرنے میں دکھاوا اور ریا و نمود اور خود پسندی اور دوسروں کوحقیر جاننے سے پرہیز کرنا لازم ہے، جب عورتوں کے سامنے ایسی باتیں کی جاتی ہیں تو کہتی ہیں کہ مولویوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بدن پر دو چیتھڑے ڈالنے سے بھی منع کرتے ہیں اور ہاتھوں میں چوڑی ڈالنے سے بھی روکتے ہیں، بہنو! مولوی کی کیا حیثیت جو کہ حلال سے روکے، البتہ وہ شریعت کی بات بتاتا ہے اور اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہے، تم زیور بھی بناؤ، کپڑے بھی طرح طرح کے بناؤ، ہر حال میں اللہ سے ڈرو، اللہ کی یاد دل میں بساؤ، زیور کپڑے کے لیے سودی لین دین نہ کرو، نہ شوہر سے رشوت لینے کے لیے کہو، حلال مال میں گنجائش دیکھ کر بنالو، پھر شریعت کے اصول کے مطابق سالانہ زکوٰۃ کے دینے کی فکر کرو اور پہننے میں دکھاوا نہ کرو، اور نہ کسی کو حقیر سمجھو، خداوند قدوس کے حکموں پر چلنے میں جنت کا داخلہ ہے اور اس کی نافرمانیاں کرنے پر جنت کے داخلہ سے رکاوٹ ہے۔ حدیث شریف میں یہی تو فرمایا کہ عورتوں کو سونے اور ریشم نے اللہ سے اور اس کے حکموں سے غافل رکھا، اور یہ چیز ان کے لیے جنت کے لیے اٹکاوا بن گئی۔ اصول شریعت کے مطابق لباس اور زیور پہنو، کون روکتا ہے اور کس کو روکنے