تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے چھٹکارا حاصل ہونے سے اگر عورت کو طبعی طور پر خوشی بھی ہوئی ہو تب بھی سوگ کرنا واجب ہے۔ مسئلہ: اگر کورٹ کے ذریعہ نکاح فسخ کردیا (اور وہ شرعی اصول کے مطابق فسخ ہوگیا ہو) تو ایسی عورت پر بھی عدت اور سوگ واجب ہے۔ مسئلہ: اگر نابالغ لڑکی کو طلاق مل گئی یا اس کا شوہر مرگیا تو اس پر سوگ واجب نہیں ہے۔ مسئلہ: جس عورت کو طلاق بائن یا طلاق مغلطہ ملی ہو اس پر یہ بھی واجب ہے کہ زمانہ عدت میں طلاق دینے والے شوہر کے گھر رہتے ہوئے اس سے پردہ کرے اور جس کو طلاق رجعی ملی ہو وہ زیب و زینت سے رہے سوگ نہ کرے۔زمانہ جاہلیت میں عدت کیسے گزاری جاتی تھی : (۱۵۳) وَعَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھَا قَالَتْ جَائَ تِ امْرَأَۃٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ ابْنَتِیْ تُوُفِّیَ عَنْھَا زَوْجُھَا وَقَدِ اشْتَکَتْ عَیْنُھَا اَفَنَکْحُلُھَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاََ مَرَّتَیْنِ اَوْثَلٰـثًا کُلَّ ذٰلِکَ یَقُوْلُ لاََ ثُمَّ قَالَ اِنَّمَا ھِیَ اَرْبَعَۃُ اَشْھُرٍ وَّعَشْرًا وَّقَدْ کَانَتْ اِحْدٰ کُنَّ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ تَرْمِیْ بِالْبَعْرَۃِ عَلٰی رَاْسِ الْحَوْلِ۔ (رواہ البخاری و مسلم) ’’حضرت ام سلمہؓ کا بیان ہے کہ ایک صحابی خاتون حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری لڑکی کا شوہر فوت ہوگیا ہے اور اس کی آنکھوں میں تکلیف ہے کیا ہم اس کی آنکھ میں سرمہ لگاسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا، نہیں ! دو یا تین بار یہی سوال و جواب ہوا۔ آپ نے ہر بار یہی فرمایا کہ نہیں لگاسکتے۔ اس کے بعد رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (شریعت اسلام میں) یہ عدت اور سوگ کے چار ماہ اور دس دن ہیں (اس کی پابندی مشکل معلوم ہورہی ہے)حالاں کہ زمانہ جاہلیت کے زمانہ میں جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو پورے ایک سال تک عدت گزارتی تھی اور ایک سال ختم ہوکر جب دوسرا سال لگتا تھا تو (اونٹ وغیرہ کی) مینگنیاں پھینکتی تھی۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۲۸۸ بحوالہ بخاری و مسلم)تشریح : اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں مختلف علاقوں اور مختلف قوموں میں شوہر کے مرجانے پر اس کی بیوہ پر طرح طرح کے احکام عائد کیے جاتے تھے۔ یہ احکام مذہبی بھی ہوتے تھے اور ملکی و قومی بھی۔ ہندوستان کے ہندوئوں میں تو یہ قانون تھا کہ بیوہ کو اپنے مردہ شوہر کے ساتھ ہی زندہ جل جانا پڑتا تھا۔ اس کو ستی ہونا کہتے تھے اور عرب میں یہ طریقہ تھا کہ جب عورت کا شوہر مرجاتا تو ایک سال اس کے لیے بڑا کٹھن ہوتا تھا۔ جس کی تفصیل سنن ابودائود میں اس طرح مروی ہے کہ: