تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نفقہ اور خوراک و پوشاک نیز مرض اور علاج معالجہ کا اہتمام تو کیا ہی جاتا ہے اور اس میں بھی بہت بڑا ثواب ہے لیکن اصلی اور سچی شفقت و محبت کا تقاضا یہ ہے کہ بچوں کو دینی زندگی پر ڈالا جائے۔ یہ دین داری آخرت کے عذاب سے بچانے والی چیز ہے۔ اس کے ذریعہ قبر اور آخرت کی غیر فانی زندگی میں آرام ملتا ہے اور کھلانے پلانے کے ذریعہ جو پرورش ہوتی ہے اس کا فائدہ دنیائے فانی تک محدود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ماں باپ کے ذمہ ہے کہ بچوں کو شفقت سے پالیں، ان کی جسمانی اور ایمانی دونوں طرح کی تربیت کریں، بہت سے لوگ بچوں کے روٹی کپڑے کی فکر کرلیتے ہیں اور طرح طرح سے ان کی دل داری کرتے ہیں مگر دین دار بنانے کی فکر نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے، اگر بچوں کی دنیا آرام سے گزرے اور آخرت خراب ہو تو یہ کون سی سمجھ داری کی بات ہے؟ اور وہ لوگ بھی قابل تنبیہہ ہیں جو اولاد کو دین دار بنانے کے لیے تو ڈانٹتے ڈپٹتے رہتے ہیں مگر پیسہ ہونے کے باوجود کنجوسی کے ساتھ ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ حالاں کہ میانہ روی کے ساتھ اولاد پر مال خرچ کرنا بھی ثواب ہے۔ حدیث شریف میں جو یہ الفاظ ہیں کہ احناہ علی ولد فی صغرہ۔ ان میں لفظ ولد نکرہ ہے۔ جس میں مطلق اولاد کا ذکر ہے۔ اگر لفظ ولدھا ہوتا تو حدیث میں شفقت سے پالنے کی فضیلت صرف عورت کی اپنی اولاد تک محدود رہ جاتی، اپنی اولاد کے علاوہ دوسرے بچوں پر شفقت کرنے کی فضیلت بتانے کے لیے حدیث میں مطلقاً لفظ ولد لاکر اس طرف اشارہ فرمایا کہ جو بچہ بھی عورت کی پرورش میں آجائے اپنا ہو یا دوسری عورت کا اسے شفقت سے پالنا خیر و خوبی اور فضیلت اور ثواب کی بات ہے۔شوہر کی پہلی بیوی کی اولاد کو تکلیف دینا ظلم ہے : بہت سی عورتیں ایسے شوہروں سے نکاح کرلیتی ہیں جس کی پہلی بیوی سے بچے ہوتے ہیں، ان بچوں کی پرورش اس نئی بیوی کو کرنی پڑتی ہے مگر بہت کم عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو شوہر کی پہلی بیوی کی اولاد کی پیار و محبت سے پرورش کرتی ہوں، ایسے بچے اکثر اپنی مادر کے مظلوم ہی ہوتے ہیں، بعض عورتیں تو یہ کرتی ہیں کہ شوہر کا مال اپنے ان بچوں پر دل کھول کر خرچ کرتی ہیں جو پہلے شوہر کے بچے ہیں اور انھیں ساتھ لے کر نئے شوہر کے یہاں تشریف لاتی ہیں اور اس نئے شوہر کی اولاد کو جو دوسری بیوی سے ہے خرچ اخراجات کی تکلیف میں رکھتی ہیں۔ حالاں کہ یہ بچے اس مال سے اخراجات پورے کرنے کے زیادہ مستحق ہیں کیوں کہ یہ ان کے اپنے باپ کا مال ہے۔ یہ نئی عورت جو بچے ساتھ لائی ہے یہ تو اس نئے شوہر کی اولاد بھی نہیں، ان پر خوب دھڑلے سے خرچ ہو اور اس کی اصل اولاد تنگ رہے، یہ سراسر ظلم ہے، اپنے شوہر کے وہ بچے جو دوسری عورت کے ہوں (خواہ اس کی