تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس حدیث شریف میں آنکھوں کا زنا بیان فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگا کر مردوں کی مجلس کے پاس سے گزرے اس کا یہ عمل بھی زنا ہے، کسی مرد و عورت میں جب زنا کاری کے تعلقات ہوتے ہیں، یکلخت نہیں ہوجاتے، بلکہ اصل زنا سے پہلے بہت سے ایسے کام کیے جاتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کو قریب تر کرتے چلے جاتے ہیں، اسی لیے شریعت مقدسہ نے زنا کو دواعی اور محرکات و اسباب کو بھی زنا قرار دیاہے۔ عورت کو اگر کسی مجبوری سے کہیں جانا ہو تو پردہ کا لحاظ کرکے مردوں سے بچتے ہوئے راستوں کے کنارے سے گزرتے ہوئے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ خوشبو لگا کر باہر نکلنا اگرچہ برقعہ کے اندر ہو، شریعت کے نزدیک اتنی بری بات ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والی عورتوں کو زناکار فرمادیا، یوں بھی عورت کو تیز خوشبو لگانا منع ہے۔ اگرچہ اپنے گھر کے اندر ہی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ عورت کو ہر طرح سے غیر مردوں سے بچ کر رہنا لازم اور ضروری ہے۔ یہاں تک کہ ایسا موقع بھی نہ آنے دے کہ کوئی غیر مرد اس کی خوشبو بھی پاسکے۔نامحرموں سے گفتگو کا قانون : حدیث سے معلوم ہوا کہ زبان کا زنا بات کرنا ہے اور کانوں کا زنا سننا ہے، اس کے پیش نظر نامحرم مرد و عورت کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے، اگر کسی ضرورت اور مجبوری سے بات کرنی پڑے تو بہت مختصر بات کرلیں، ہاں، ناں کا جواب دے کر ختم کرڈالیں، جہاں تک ممکن ہو آواز پست رکھیں اور لہجہ میں کشش پیدا نہ ہونے دیں۔ صاحب در مختار لکھتے ہیں: فَاِنَّا نُجِیْزُ الْکَلاََمَ مَعَ النِّسَآئِ لْلاََِجَانِبِ مُحَاوَرَتَھَنَّ عِنْدَالْحاَجَۃِ اِلٰی ذٰلِکَ وَلاََ نُجِیْزُ لَھُنَّ رَفْعَ اَصْوَاتِھِنَّ وَلاََ تَمْطِیْطَھَا وَلاََ تَلْیِیْنَھَا وَتَقْطِیْعَھَا لِمَا فِیْ ذٰلِکَ مِنْ اِسْتَمَالَۃِ الرِّجَالِ اِلَیْھِنَّ وَتَحْرِیْکِ الشَّھْوَاتِ مِنْھُمْ۔ ’’یعنی ضرورت کے لیے ہم اس بات کو جائز سمجھتے ہیں کہ عورت نامحرم سے گفتگو یا سوال و جواب کرے۔ لیکن اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ نامحرم سے بات کرتے ہوئے گفتگو لمبی کرتی چلی جائیں یا نرم لہجہ میں بات کریں یا بات میں لچک پیدا کریں، کیوں کہ ایسا کرنے سے مردوں کے دل مائل ہوں گے اور ان کی طبیعتوں میں ابھار ہوگا۔ سورئہ احزاب میں ارشاد ہے: فَلاََ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبَِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوْفًا۔ یعنی تم بات کرنے میں نزاکت اختیار نہ کرو، کیوں کہ اس سے ایسے شخص کو طبعی میلان ہوگا جس کے دل میں مرض ہے۔ لہٰذا تم مناسب طریقہ پر بات کرو، (جو پاک باز عفت شعار عورتوں کا جانا پہچانا اور برتا ہو اطریقہ ہے)۔‘‘