تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فاجروں کی مشابہت اختیار کرنا بھی منع ہے۔ آج کل یہ مصیبت عام ہوگئی ہے کہ مرد عورت وضع قطع، لباس، پوشاک اور شکل و صورت میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے نہیں رکھتے، بلکہ یہود و نصاریٰ کو اپنا امام بناتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خدارا فاسقوں اور کافروں کی پیروی کو چھوڑو اور مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اخلاق و اعمال کو پیشوا بناؤ۔سجاوٹ کے لیے دیواروں پر کپڑا لٹکانے اور تصویر والا غالیچہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگواری : (۲۳۷) وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَخَرَجَ فِیْ غَزَاۃٍ فَاَخَذْتُ نَمَطًا فَسَتَرْتُہٗ فَلَمَّا قَدِمَ فَرْأَی النَّمَطَ فَجَذَبَہُ حَتَّی ھَتَکَہٗ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَامُرْنَا اَنْ نَکْسُوَا الْحِجَارَۃَ وَالِطَّیْنَ۔ (رواہ البخاری و مسلم) ’’حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار جہاد کے لیے تشریف لے گئے، آپ کے پیچھے میں نے ایک اچھا عمدہ کپڑا خرید ا جس میں باریک جھالر تھی، اور اس کپڑے کو بہ طور پردہ (دروازہ پر) لٹکادیا۔ جب آپ تشریف لائے تو اس کپڑے کو دیکھ کر (اس زور سے) کھینچا کہ وہ چاک ہوگیا۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ حکم نہیں فرمایا کہ پتھروں کو اور مٹی کو کپڑے پہنائیں۔‘‘ (مشکوٰۃ ۳۸۵، از بخاری و مسلم)تشریح : گھروں کی سجاوٹ میں پیسہ خرچ کرنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں تھا، اسی لیے آپ نے حضرت عائشہؓ کا سجایا ہوا خوبصورت پردہ چاک کردیا، اور فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ حکم نہیں فرمایا کہ پتھروں اور مٹی کو کپڑے پہنائیں، جہاں تک دروازہ پر غیروں کی نظر سے بچنے کے لیے پردہ ڈالنے کا تعلق ہے وہ ٹاٹ یا موٹے سستے کپڑے کا بھی ہوسکتا ہے، قیمتی یا خوبصورت پردہ لٹکانا اس مقصد کے لیے کوئی ضروری نہیں ہے، اس زمانہ میں دیواروں اور دروازوں اور کھڑکیوں پر پردے لٹکانے کا فیشن ہوگیا ہے، محض سجاوٹ اور زیب و زینت کے لیے قیمتی اور خوبصورت پردے لٹکائے جاتے ہیں، اور اس میں مسلمانوں کے لاکھوں روپے خرچ ہورہے ہیں، پاس پڑوس اور شہر و دیہات کے لاتعداد انسانوں کے پاس تن پوشی کے لیے کچھ نہیں ہے، اور ہم غیروں کو دیکھا دیکھی اور دیوار کو پوشاک پہنا کر اپنے لیے لذت نظر کا انتظام کررہے ہیں، انسانوں کی حاجتیں اٹکی ہوئی ہیں، اور اینٹ و پتھر کے ساتھ سخاوت ہورہی ہے، درحقیقت یہ سبق عملی طور پر غیروں نے پڑھایا ہے، اگر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر چلنے کا ارادہ کرتے تو کبھی فضول خرچی کی طرف ذہن بھی نہ جاتا۔ پھر یہ بات عجیب ہے کہ شرعی پردہ تو خواتین چھوڑتی جارہی ہیں او رجو پردہ نامحرموں کی نظروں سے بچانے کے لیے تھا وہ درودیوار کی آزمائش کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے، پارکوں او رکپڑے کی مارکیٹوں میں بے حجابانہ منہ