تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسلام سے پہلے عرب میں دستور تھا کہ عورتوں میں نوحہ کا ادلا بدلہ چلتا تھا، کسی کے مرنے پرکوئی عورت مرنے والے کے گھر آئی اور وہاں رو پیٹ کر چلی گئی، پھر جب رونے والی کے گھر میں کوئی مرا تو اس گھر کی عورتیں آکر اس کے ہاں روتی تھیں، جس گھر میں جاکر یہ عورت رو کر آئی تھی، جب ایک عورت دوسری عورت کے گھر رونے کے لیے جاتی تھی، تو گھر والی عورتیں اور یہ پہنچنے والی عورت سب مل کر روتی تھیں، اسی طرح باہر سے آکر رونے والی کا عمل گھر والوں کی رونے والی کا معاون ہوجاتا تھا اور اس عمل کا نام اسعاد رکھتے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے یہ بیعت لی تھی کہ نوحہ نہ کریں گی، ایک مرتبہ جب آپ یہ بیعت لینے لگے تو عورتوں نے عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! زمانہ جاہلیت میں بہت سی عورتوں نے ہمارے نوحہ میں مدد دی ہے تو کیا اس کی گنجائش ہے کہ ہم بھی ان کے رنج کے موقع پر نوحہ کرکے ان کی مدد کریں۔ آپ نے فرمایا لااسعاد فی الاسلام یعنی اسلام میں نوحہ کرنے والی کی مدد گاری کی کوئی گنجائش نہیں۔ (نسائی شریف)بیان کرکے رونے کا وبال : بعض روایات میں ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے (بخاری و مسلم) اس کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہ عذاب ان لوگوں کو ہوتا ہے جو یہ وصیت کر جاتے ہیں کہ ہمارے مرنے پر نوحہ کرنا، جیسا کہ اہل عرب کی عادت تھی، وصیت کرنے والا چونکہ گناہ کی ترغیب دینے والا بن گیا، اس لیے موت کے بعد عذاب میں مبتلا ہونا قرین قیاس ہے اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ عذاب کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت پکارتی ہے تو ایسا تھا اور ایسا تھا، تو فرشتے اس مرنے والے سے سوال کرتے جاتے ہیں، کیا تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تیرے گھر والے کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ مرنے والوں کو رو کر اپنی محبت کی ریاکاری اور بھڑاس نکالنے کے بجائے مرنے والے کا خیال کرنا چاہیے، کیوں کہ جب اس کے اوصاف بیان کرکے رویا جائے گا اور اس سے فرشتے پوچھیں گے کہ کیا تو ایسا ہی ہے؟ تو اس کو تکلیف ہوگی، عرب میں یہ بھی رواج تھا کہ جنازہ کے ساتھ رونے والی عورتیں جایا کرتی تھیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا۔ (کما فی سنن ابن ماجہ ص ۱۱۳)نوحہ مردوں کے لیے بھی ممنوع ہے : نوحہ کرنا مرد و عورت سب کے لیے ممنوع ہے، حدیث شریف میں عورتوں کا ذکر خصوصیت سے اس لیے فرمایا کہ یہ مشغلہ زیادہ تر عورتیں ہی کرتی ہیں۔ (قال علی