تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کسی عورت کو اتنی جلدی اغوا نہیں کرسکتا جتنی جلدی اور باآسانی دیور یا جیٹھ اپنی بھابھی کو اغوا کرنے یا بے حیائی کے کام پر آمادہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ انہی حالات کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سسرال کے مردوں سے بچنے اور پردہ کرنے کی سخت تاکید فرمادی ہے، اور ان لوگوں کو موت بتاکر یہ بتادیا ہے کہ ان سے ایسا پرہیز کرو جیسا موت سے بچتی ہو، اور مردوں کو بھی حکم ہے اپنی بھاوج اور سالے وغیرہ کی بیوی سے خلا ملا نہ رکھیں، اور نظر نہ ڈالیں۔ قال فی اللمعات والمراد وتحذیر المراۃ منھم کما یحذر من الموت فان الخوف من الاقارب اکثر والفتنۃ منھم اوقع لتمکتھم من الوصول والخلوہ من غیر نکیر۔ بعض عورتیں اپنے دیور کو چھوٹی عمر میں پرورش کرتی ہیں اور جب وہ بڑا ہوجاتا ہے تو اس سے پردہ کرنے کو برا سمجھتی ہیں، اور اگر مسئلہ بتایا جاتا ہے کہ یہ نامحرم ہے تو کہتی ہیں کہ اس کو ہم نے چھوٹا سا پالا ہے، رات دن ساتھ رہا ہے اس سے کیا پردہ۔ یہ بڑے گناہ کی بات ہے کہ آدمی گناہ بھی کرے اور شریعت کے مقابلہ میں کٹ حجتی پر اتر آئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو دیور کو موت بتائیں اور جہالت کی ماری عورتیں اس کے سامنے آنے کو ضروری سمجھیں، یہ کیا مسلمانی ہے؟ تنبیہ: پردہ حق شرع ہے، شوہر کا حق نہیں ہے، بہت سی عورتیں سمجھتی ہیں کہ شوہر جس سے پردہ کرائے اس سے پردہ کیا جائے اور شوہر جس کے سامنے آنے کو کہے اس کے سامنے آجائیں، یہ سراسر غلط ہے۔ شوہر ہو یا کوئی دوسرا شخص، اس کے کہنے سے گناہ کرنے کی اجازت نہیں ہوجاتی، خوب سمجھ لو۔نابینا سے پردہ کرنے کا حکم : (۲۱۲) وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہَا اَنَّھَا کَانَتْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَیْمُوْنَۃُ اِذْاَقْبَلَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ فَدَخَلَ عَلَیْہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِحْتَجِبَا مِنْہُ فَقُلْتُ َیارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلَیْسَ ھُوَ اَعْمٰی لاََ یَبْصُرُنَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَفَعَمْیَا وَاَنْ اَنْتُمَا اَلَسْتُمَا تَبْصُرَانِہِ۔ (رواہ احمد والترمذی و ابودائود) ’’ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں اور میمونہؓ ہم دونوں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں کہ اچانک عبداللہ بن ام مکتوم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سامنے سے آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے۔ (چونکہ عبداللہؓ نابینا تھے، اس لیے ہم دونوں نے ان سے پردہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا اور اسی طرح اپنی جگہ بیٹھی رہیں۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پردہ کرو، میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ ہم کو وہ نہیں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کیا تم دونوں (بھی) نابینا ہو؟ کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو؟ (مشکوٰۃ ص ۲۶۹، از احمد و