تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جیسے روپیہ کے ساتھ کلیجہ نکلا آرہا ہے ، بھلا ایسے کر کے اپنا ثواب کھونے سے کیا فائدہ؟ بعض نیک بخت لوگ کسی ضرورت مند کا کھانا مقرر کرنا چاہتے ہیں مگر بیوی آڑے آجاتی ہے اگر شوہر نے مقرر کر ہی دیا تو ہر روز کھانا نکالتے وقت جھک جھک کر تی ہیں جس سے شوہر بھی آزردہ ہوجاتا ہے اور کھانا لینے والے کا دل بھی دکھتا ہے اور اپنا ثواب بھی کھوتی ہیں ۔ حدیث شریف میں شوہر کے مال سے عور ت کے صدقہ خیرات کرنے کا ثواب بتاتے ہوئے غَیْرَ مُفْسِدَۃٍ کا لفظ بڑھایا ہے یعنی بگاڑ کی راہ پر چلنے والی نہ ہو۔ اس لفظ کا مطلب بہت عام ہے جو بہت سی باتوں کو شامل ہے مثلاً یہ کہ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں خرچ کرتی ہو ، اجازت کے لیے صاف زبانی اجازت لینا ضروری نہیں ہے اگر یہ معلوم ہے کہ شوہر خرچ کرنے پردل سے راضی ہے تو یہ بھی اجازت کے درجہ میں ہے اور یہ بھی بگاڑ کی راہ ہے کہ اپنے عزیزوں کو نوازتی ہو اور شوہر کے عزیز قریب ماں باپ اور اہل اولاد (خصوصاً پہلی بیوی کے بچوں کو) خرچ سے پریشان رکھتی ہو یا مثلاً ثواب سمجھ کر بدعتوں پر خرچ کرتی ہو ، یا وہ چیز خرچ کرتی ہو جو مالیت کے اعتبار سے زیادہ ہے اس کا خرچ کرنا شوہر کو کھل جاتا ہو۔ زیادہ مال کے خرچ میں صاف اجازت کی ضرورت ہے بہت سی عورتوں کو صدقہ کا جوش ہوتا ہے مگر مرد کی اجازت کا دھیان نہیں کرتی ہیں یہ غلطی ہے ہاں اپنا ذاتی مال ہو تو شوہر کی اجازت کی پابندی نہیں ہے مگر مشورہ کرلینا اس صورت میں بھی مفید ہے کیوں کہ مردوں کو سمجھ زیادہ ہوتی ہے، ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے باپوں اور بیٹوں اور شوہروں کے مالوں میں سے کیا کچھ خرچ کرنا (یعنی صدقہ کرنا اور ہدیہ لینا دینا) ہمارے لیے حلال ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اَلرَّطَبُ تَاکُلْنَہٗ وَتُھْدِیْنَہٗ یعنی ہری گیلی چیز (ان کی صاف اجازت کے بغیر بھی) کھا لیا کرو اور ہدیہ دے دیا کرو۔ کیوں کہ عموماً ایسی چیزوں سے خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے ، ہاں اگر صاف منع کر دیں تو رک جانا ، ہری گیلی چیز سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کے رکھے رہ جانے سے خراب ہوجانے کا اندیشہ ہوجیسے شوربہ ، سبزی ، پھل وغیرہ۔سائل کو ضرور دینا چاہیے : ۴۴۔ وَعَنْ اُمِّ بُجَیْدٍؓ قَالَتْ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَّ الْمِسْکِیْنَ یَقِفْ عَلٰی بِأَبِیْ حَتٰی اَسْتَحِیْ فَلَا اَجَدُ فِیْ بَیْتِیْ مَا اَدْفَعُ فِیْ یَدِہٖ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَدْفَعُ فِیْ یَدِہٖ وَلَوْ ظِلْفًا مُّحَرَّقًا۔ (رواہ الترمذی وقال حسن صحیح) حضرت اُمِّ بجید ؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول خداﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میرے دروازہ پر مسکین آکھڑا ہوتا ہے(اسے کچھ دیئے بغیر واپس کرنے میں شرم آتی ہے) اور دینے کے لیے (خاص قابل ذکر) چیز گھر میں ہوتی نہیں (تو اس صورت میں کیا کروں)فرمایا(جو کچھ ہوسکے) اس کے ہاتھ پر رکھ دو اگرچہ (بکری وغیرہ) کا جلایا ہوا کھر ہی ہو۔ (مشکوٰۃ