تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کے یہاں وقت مقرر ہے، لہٰذا صبر کرنا چاہیے اور ثواب پختہ کی امید رکھیں۔ آپ کی صاحبزادی نے دوبارہ قسم دے کر پیغام بھیجا کہ ضرور ہی تشریف لائیں۔ آپ روانہ ہوئے اور آپ کے ہمراہ سعد بن عبادہؓ، معاذ بن جبلؓ، ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید بن ثابتؓ اور دیگر چند حضرات تھے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو بچہ آپ کے ہاتھوں میں دے دیا گیا، جو جان کنی کے عالم میں تھا۔ بچہ کی حالت خوددیکھ کر آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض۔ کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا بات ہے؟ (آپ رو رہے ہیں؟) آپ نے فرمایا، یہ رونا اس صفت رحمت کی وجہ سے ہے جو اللہ پاک نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ ص ۱۵۰، ازبخاری و مسلم) تشریح: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اول تو اپنی صاحبزادی کو پیغام بھیجا کہ بچہ کی وفات پر صبر کریں اور اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے اجر و ثواب کا پختہ یقین رکھیں، اور ساتھ ہی ساتھ صبر دلانے والا مضمون بھی بتایا کہ بندہ کا کوئی چارہ نہیں، نہ کوئی دم مارنے کی مجال ہے، اللہ نے جو کچھ دیا وہ اسی کی ملکیت ہے اور جو کچھ اس نے واپس لیا وہ بھی اسی کا ہے۔ اگر دینے والااپنی ہی چیز واپس لے لے اس میں کسی کو اعتراض کا کیا موقع ہے۔ خصوصاً جب کہ لینے والا اپنی چیز لے رہا ہے اورلینے کے ساتھ بہت بڑے اجر و ثواب کا وعدہ بھی فرما رہا ہے۔ خواہ مخواہ بے صبری کرکے اپنا ثواب کھونا اور خدائے پاک کو ناراض کرنا بہت بڑی نادانی اور کم عقلی ہے، جب آپ کی صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور قسم دلائی تو آپ تشریف لے گئے، بچہ کو اٹھایا تو مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، یہ کیفیت دیکھ کر حضرت سعد بن عبادہؓ کو تعجب ہوا اور بے ساختہ بول پڑے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رو رہے ہیں؟ حالاں کہ آپ تو صبر کی تلقین فرماتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ رونا آجانا غیر اختیاری امر ہے جو رحم دل ہونے کی دلیل ہے، اس پر نہ مواخذہ ہے نہ یہ خلاف صبر ہے۔اختیاری چیزوں پر گرفت ہے : اصل بات یہ ہے کہ شریعت میں ان چیزوں پر پکڑ ہے جو بندہ کے اختیار میں ہوں اور جو چیزیں اختیار میں نہ ہوں اس پر گرفت نہیں ہے، آنکھوں سے آنسوؤں کا آجانا بندہ کے اختیار میں نہیں ہے، اس پرنہ گرفت ہے نہ یہ بے صبری میں شمار ہے، ہاں زبان کو استعمال کرنا چونکہ امر اختیاری ہے اس لیے اس پر گرفت ہوجاتی ہے اگر اللہ تعالیٰ پر اعتراض کیا جائے، کفریہ کلمات بکے جائیں اور جاہلانہ باتیں زبان سے نکالی جائیں تو اس پر مواخذہ ہے اور اللہ پر اعتراض کرنے اور کفریہ کلمات بکنے سے کفر عائد ہوجاتا ہے۔