تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
راحت ہے۔ حضرت اسماءؓ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو اپنے سامنے میری موت کی آرزو کرتا ہے حالاں کہ میں چاہتی ہوں کہ جب تک دشمن سے جنگ کرکے تیرا معاملہ صاف نہ ہوجائے اس وقت تک زندہ رہوں۔ اگر تو مقتول ہوجائے تو میں بیٹے کی موت پر صبر کرکے ثواب لے لوں گی اور اگر تو اپنے دشمن کے مقابلہ میں کامیاب ہوجائے گا تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ہنسے۔ پھر جس روز ان کو شہید کیا گیا اس دن اپنی والدہ کے پاس گئے، وہ اس وقت مسجدمیں تھیں، انھوں نے نصیحت کی کہ بیٹا قتل کے خوف سے دشمن کی جانب سے کوئی ایسی چیز قبول نہ کرنا جس سے ذلت کا سامان کرنا پڑے۔ خدا کی قسم عزت میں تلوار کی دھار برداشت کرلینا اس سے بہتر ہے کہ آدمی ذلت برداشت کرے اور تلوار کی دھار کے بجائے ایک کوڑے کی مار کھا کر ذلت کی زندگی گزارے، اس کے بعد لڑنا شروع کیا، دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ خوب جنگ کی۔ حتیٰ کہ صفا کی جانب سے ان کی آنکھوں کے درمیان ایک پتھر آکر لگا۔ اس کے بعد دشمن ان کو مارتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کو قتل کردیا، قتل کرنے کے بعد شامیوں نے خوشی میں اللہ اکبر کہا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ اس بچہ کی پیدائش کے دن جن لوگوں نے خوشی میں اللہ اکبر کہا وہ ان لوگوں سے بہتر تھے جو اس کے قتل میں اللہ اکبر کہہ رہے ہیں۔ (الاستیعاب)حضرت اسماء کا حجاج سے بے باک مکالمہ : دشمنوں نے قتل کرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی لاش کو سولی پر چڑھادیا تھا۔ حضرت اسماءؓ حجاج بن یوسف کے پاس گئیں۔ اس وقت نابینا ہوچکی تھیں۔ انھوں نے حجاج سے کہاکہ اس سوار کے اترنے کا وقت نہیں آیا۔ حجاج نے کہا یہ منافق؟ حضرت اسماءؓ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم وہ منافق نہیں تھا بلکہ روزے رکھنے والا اور راتوں کو نماز پڑھنے والا تھاا ور حسن سلوک سے پیش آنے والا تھا۔ حجاج نے کہا کہ بڑھیا تو چلی جا تیری عقل خراب ہوگئی ہے۔ حضرت اسماءؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میری عقل خراب نہیں ہوئی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شقیف کے قبیلے میں ایک بہت بڑا جھوٹا اور ایک بہت بڑا فسادی ہوگا، بہت بڑے جھوٹے کو تو ہم دیکھ چکے ہیں (یعنی مختار بن عبید ثقفی کو) اور فسادی تو میرے خیال میں تو ہی ہے (الاستیعاب) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حجاج بن یوسف نے حضرت اسماءؓ کو بلوایا، انھوں نے آنے سے انکار کردیا۔ اس نے پھر قاصد کو بھیجا کہ ضرور چلی آئو ورنہ ایسا شخص بھیجوں گا جو تیرے بال پکڑ کر کھینچ لائے گا۔ حضرت اسماءؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں تیرے پاس نہیں آئوں گی یہاں تک کہ تو کوئی ایسا شخص بھیج دے جو میرے بال پکڑ کر کھینچتا ہوا لے جائے۔ اس پر حجا ج خود روانہ ہوا اور حضرت اسماءؓ کے پاس آکر کہنے لگا کہ تو نے دیکھا کہ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا (یعنی تیرے بیٹے عبداللہؓ کو قتل