تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عاشورہ کا روزہ : اور یوم عاشورہ(یعنی محرم کی دس تاریخ) کے بارے میں اللہ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ اس کے رکھنے کی وجہ سے ایک سال پہلے کے گناہوں کا کفارہ فرمادیں گے۔ (مشکوٰۃ) بقر عید کی نویں تاریخ سے پہلے جو آٹھ دن ہیں ان کا روزہ رکھنے کی بھی فضیلت آئی ہے۔ ان روزوں کے علاوہ اور جس قدر نفل روزے کوئی شخص مرد یا عورت رکھ لے گا اس کے حق میں اچھا ہوگا۔ قیامت کے دن نوافل کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جائے گی۔ اس لیے اس عبادت سے غافل نہ ہوں، لیکن دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ اول یہ کہ اس عبادت کی وجہ سے کسی کی حق تلفی نہ ہو، مثلاً مرد زیادہ نفلی روزے رکھ کر اس قدر کمزور نہ ہوجائے کہ بیوی بچوں کو کما کر نہ دے سکے اور دوسرے حقوق میں کوتاہی ہونے لگے یا مثلاً کوئی عورت روزے رکھنے کی وجہ سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع نہ کردے۔عید کے مہینے میں چھ روزے رکھنے کی فضیلت : ۶۶۔ وَعَنْ اَبِیْ اَیُّوْبِ الْاَنْصَارِیِّ ؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہُ ﷺ قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہٗ سِتًّا مِّنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ۔ (رواہ مسلم) حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ (نفل) روزے شوال (یعنی عید) کے مہینے میں رکھ لیے تو (پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا اور ہمیشہ ایسا ہی کرے گا تو) گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے۔ (مسلم شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف ص ۱۷۹) تشریح: اس مبارک حدیث میں رمضان مبارک گزرنے کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کا عظیم ثواب بتایا گیا ہے۔ ثواب دینے کے بارے میں اللہ پاک نے یہ مہربانی فرمائی ہے کہ ہر عمل کا ثواب کم از کم دس گنا مقرر فرمایا ہے۔ جب کسی نے رمضان کے تیس روزے رکھے اور پھر چھ روزے اور رکھ لیے تو یہ چھتیس روزے ہوگئے، چھتیس کو دس سے ضرب دینے سے تین سو ساٹھ روزے ہوجاتے ہیں۔ قمر کے حساب سے ایک سال تین سو ساٹھ دن کا ہوتا ہے۔ لہٰذا چھتیس روزے رکھنے پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین سو ساٹھ روزے شمارہوں گے اور اس طرح پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا، اگر ہر سال کوئی شخص ایسا ہی کرلیا کرے تو وہ ثواب کے اعتبار سے ساری عمر روزے رکھنے والا مان لیا جائے گا۔ اللہ اکبر! بے انتہا رحمت اور آخرت کی کمائی کے اللہ پاک نے کیسے کیسے بیش بہا مواقع دیئے ہیں۔ فائدہ: اگر رمضان کے روزے چاند کی وجہ سے انتیس ہی رہ جائیں تب بھی یہ تیس ہی شمار ہوں گے۔ کیوں کہ ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ چاند نظر نہ آئے تو تیسواں روزہ بھی رکھے گا۔ اس اعتبار سے انتیس روزے رمضان کے اور چھ عید