تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پر عورتوں نے صدقہ دینا شروع کیا اور اپنے کانوں اور حلقوں کے زیور اتار اتار کر دیتی رہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بڑی بڑی انگوٹھیوں کے ساتھ کانوں کی بالیاں، جھمکیاں اور گلوں کے ہار بھی ان آخرت سے محبت رکھنے والی مستورات نے بارگاہ رسالت میں پیش کردیئے۔ آپ کا یہ صدقہ وصول کرنا عام ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کے لیے تھا، آپ کے لیے صدقے کا مال حلال نہیں تھا، وہاں سے اٹھ کر اپنی صوابدید سے فقرا اور مساکین پر خرچ فرمایا۔ اس قصے سے صحابی عورتوں کی سخاوت کا پتہ چلا اور یہ معلوم ہوا کہ آخرت کی محبت اور مرنے کے بعدملنے والے ثواب کے مقابلے میں ان کے نزدیک زیور کی کوئی حقیقت نہ تھی چوں کہ یقین کامل تھا اس لیے جنت کے زیور کی طلب اور رغبت میں انھوں نے بے جھجھک اپنے زیور فی سبیل اللہ اتار کر دے دیئے اور اس فانی دنیا میں کانوں، گلوں اور ہاتھوں کو بغیر زیور کے رکھنا پسند کرلیا۔ اللہ تعالیٰ ہم کو بھی ایسے ہی جذبات نصیب فرمائے، آمین۔ 1 یہ دیکھنا چاہیے کہ زیور کا مالک شوہر ہے یا بیوی، جو مالک ہو، اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو بیوی کو دے دیا ہے۔ وہی زکوٰۃ کی ذمہ دار ہے۔ حالاں کہ اگر لڑائی ہوجائے یا طلاق کا موقعہ آجائے تو زیور واپس لینے لگتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل مالک مرد ہے ورنہ واپس کیوں لیتا، ہاں اگروہ زیور عورت نے اپنی مہر کی رقم سے بنوایا ہے یا کسی کے ترکہ میں ملا یا شوہر نے خرید کر بالکل اسے دے دیا ہے تواس کی زکوٰۃ عورت ادا کرے۔ 2 جو زیور شوہر کی ملکیت ہے اس کو شوہر کی اجازت کے بغیر صدقہ کرنا جائز نہیں ہے۔ 3 نابالغ بچی کے لیے جو زیور بنایا گیا ہو اگر بچی ہی کی ملکیت قرار دے دی ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں اور اگر وہ صرف پہنتی ہے اور مالک ماں یا باپ یا کوئی دوسرا ولی ہے تو اس پر زکو ٰۃ فرض ہے۔ اس فرق کو خوب سمجھ لینا چاہیے۔ماں باپ کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم : ۲۸۔ وَعَنْ اَسْمَائَ ؓ قَالَتْ قَدِمَتْ عَلیَّ اُمِّیْ وَھِیَ مُشْرِکَۃٌ فِیْ عَھْدِ قُرَیْشٍ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اُمِّی قَدِمَتْ عَلَیَّ وَھِیَ رَاغِبَۃٌ1 (1 یالباء والمیم روایتان والا ولی اکثر واشہر و معنی کونہا راغبہ مائۃ الی مال ابنتہا او راغبۃ فی الاسلام او عن الاسلام قیل ہذا نسب بالمقام ومعنی کونہاراغمہ (بالمیم) ذلیلہ ومحتاجہ وہو موافق لاحدا لمعانی المذکورۃ فی الروایتہ الاولی) اَفَاَصِلُھَا قَالَ نَعَمْ صِلِیْھَا۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت اسماء ؓ کا بیان ہے کہ میری والدہ اس زمانہ میں مدینہ منورہ آئیں جب کہ حضور اقدسﷺ نے قریش مکہ سے معاہدہ کر رکھا تھا، اس وقت تک وہ مسلمان نہ ہوئی تھیں بلکہ مشرک تھیں، میں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ میری والدہ آئی ہیں جو مجھ سے ملنے کی امیدوار ہیں ۔ کیا میں ان سے صلہ رحمی کا برتاؤ کروں (اور ان کو حسب توفیق کچھ دے دوں) آپ نے فرمایا، ہاں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ، ص ۴۱۹)