تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوتا رہتا ہے، وعدہ کرکے پھر وعدہ پورا کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ بچہ کو بہلانے کے لیے جھوٹ سے بہلادیتے ہیں کہ فلاں چیز لائیں گے، یہ منگا کر دیں گے، وہ بنوا کر لائیں گے، یہ جھوٹے وعدے کرنا اور پورانہ کرنا گناہ ہے، جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوا۔سوتن وغیرہ کو جلانے کے لیے جھوٹ بولنے کی مذمت : (۱۹۶) وَعَنْ اَسْمَائَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہَا اَنَّ اَمْرَأَۃً قَالَتْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ لِیْ ضَرَّۃً فَھَلْ عَلَیَّ جُنَاحٌ اِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِیْ غَیْرَ الَّذِیْ یُعْطِیْنِیْ فَقَالَ الْمُتَشَبِّعُ بِمَالَمْ یُعْطَ کَلاََ بِسِ ثَوْبِیْ زُوْرٍ۔ (رواہ البخاری و مسلم) ’’حضرت اسماءؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بلاشبہ میری ایک سوتن ہے، کیا مجھے گناہ ہوگا؟ اگر میں (اس کو جلانے کے لئے) جھوٹ موٹ یوں کہہ دوں کہ یہ چیز مجھے شوہر نے دی ہے، حالاں کہ اس نے نہ دی ہو، اس کے جواب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کو کوئی چیز حقیقت میں نہ ملی ہو اس کے بارے میں یہ ظاہر کرنا کہ یہ مجھے ملی ہے ایساہے جیسے کوئی جھوٹ کے دو کپڑے پہن لے۔‘‘ (مشکوٰۃ ص ۲۸۱، از بخاری و مسلم) تشریح: مومن کے دل میں جو ایمان ہے یہ اللہ کا واعظ ہے، غلط جذبات او ربرے وسوسے سے جو دل میں آتے ہیں، یہ واعظ قلب جو اندر بیٹھا ہوا ہے متنبہ کرتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، جن کا ایمان اصلی ہے اور جنھوں نے ایمان کی روشنی کو گناہوں کی کثرت سے دھندلا نہیں کیا ان کو جب کسی خراب عمل کا خطرہ گزرے گا، گناہ کرنے کا وسوسہ آئے گا، فوراً دل میں ایک چبھن محسوس کریں گے، ان کو ایسا معلوم ہوگا جیسے اندر کوئی الارم دے رہا ہے او ربتارہا ہے کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے، اگر ٹھیک بے ٹھیک کا فیصلہ خود نہیں کرسکتے تو جاننے والوں سے معلوم کرلیں، جب اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہم جیسے مسلمانوں کا یہ حال ہے تو حضرات صحابہؓ جن کا ایمان پہاڑ سے بھی بڑا تھا وہ ایسے خطرات اور وساوس پر کیوں متنبہ نہ ہوتے۔ حدیث بالا میں اسی طرح کا ایک واقعہ ایک صحابی خاتون کا مذکور ہے، ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ میں اپنی سوتن کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ کہہ دوں کہ مجھے شوہر نے فلاں فلاں چیزیں دی ہیں تو اس کا دل جلے گا اور اس کے جلنے سے مجھے خوشی ہوگی، لیکن فوراً نفس کے اس عیب کو ان کے بیدار قلب نے پکڑلیا اور دل میں کھٹک ہوئی کہ ایسا کرنا شاید ناجائز ہو، لہٰذا ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنا چاہا، درحقیقت مومن صادق کا دل گناہ پر مطمئن نہیں ہوسکتا۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان (کی علامت)کیا ہے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: