تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرماں برداری کرو۔‘‘ ان آیات میں اول تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی غیر محرم سے ضرورتاً اگر بات کرنی پڑے تو گفتگو کے انداز میں نزاکت اور لہجہ میں جاذبیت کے طریقہ پر بات نہ کریں، جس طرح چال ڈھال اور رفتار کے انداز سے دل کھینچتے ہیں، اسی طرح گفتار کی نزاکت والے انداز کی طرف بھی کشش ہوتی ہے، عورت کی آواز میں طبعی اور فطری طور پر نرمی اور لہجہ میں دل کشی ہوتی ہے، پاک نفس عورتوں کی یہ شان ہے کہ غیر مردوں سے بات کرنے میں بہ تکلف ایسا لب و لہجہ اختیار کریں جس میں خشونت اور روکھا پن ہو، تاکہ کسی بدباطن کا قلبی میلان نہ ہونے پائے۔ دوسرا حکم یہ ارشاد فرمایا کہ تم اپنے گھروں میں رہو، اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے شب و روز گزارنے کی، اصل جگہ ان کے اپنے گھر ہی ہیں، شرعاً جن ضرورتوں کے لیے گھر سے نکلنا جائز ہے پردہ کے خوب اہتمام کے ساتھ بہ قدر ضرورت نکل سکتی ہیں۔ آیت کے سیاق سے واضح طور پر معلوم ہورہا ہے کہ بلاضرورت پردہ کے ساتھ بھی باہر نکلنا اچھا نہیں ہے، جہاں تک ہوسکے نامحرم کی نظروں سے لباس بھی پوشیدہ رکھنا چاہیے۔جاہلیت اولیٰ کے دستور کے مطابق پھرنے کی ممانعت : تیسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ زمانہ قدیم کی جہالت کے مطابق پھر ا مت کرو، زمانہ قدیم کی جہالت سے عرب کی وہ جہالت مراد ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کے رواج اور سماج میں جگہ پکڑے ہوئے تھی، اس زمانہ کی عورتیں بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ بلاجھجھک بازاروں میں اور میلوں میں اور گلی کوچوں میں بے پردہ ہوکر پھرا کرتی تھیں، اور بن ٹھن کے نکلتی تھیں اور سر پر یا گلے میں فیشن کے لیے دوپٹہ ڈال دیا، نہ اس سے سینہ ڈھکا، نہ کان اور چہرہ چھپایا، جدھر کو جانا ہوا چل پڑیں، مردوں کی بھیڑ میں گھس گئیں، نہ اپنے پرائے کا امتیاز نہ غیر محرموں سے بچنے کا فکر، یہ تھا جاہلیت اولیٰ کا رواج اور سماج، جو آج بھی اسلام کا دعویٰ کرنے والی عورتوں میں جگہ لے چکا ہے، اور نئے مجتہدین پردہ شکنی کی دعوت دے کر ہی جاہلیت اولیٰ کو ترقی دینا چاہتے ہیں، جس کے مٹانے کے لیے قرآن کریم کا نزول ہوا، سورئہ احزاب ہی میں ارشاد ہے: وَاِذَا سَالْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ۔ ’’اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو۔‘‘ یہاں بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیات بالا میں امہات المومنینؓ کو خطاب ہے، پھر آپ دوسری مسلمان عورتوں پر اس قانون کو کیوں لاگو کرتے ہیں، یہ لچر سوال شریعت کا بھرپور علم نہ ہونے کے باعث اٹھایا جاتا ہے۔ اگر قرآن کے مزاج سے یہ لوگ واقف ہوتے اور اس کو جان لیتے کہ قرآن کا خطاب خاص اور مورد عام ہوا کرتا ہے تو ایسا سوال نہ کرتے، حضرات صحابہ کرامؓ، خلفاء راشدینؓ، آئمہ مجتہدینؒ، سلف