تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیونکر قبول ہو۔ خوب سوچ لو۔ اللہ جل جلالہ ہم کو ہمیشہ خلوص دل سے دعا کرنے کی توفیق دے اور ہماری دعائیں قبول فرمائے۔ اِنَّہٗ بِالْاِجَابَۃِ جَدِیْرٌ وَّعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌسختی کے زمانہ میں دعا کیسے قبول ہو : ۱۱۹۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَ ؓ قَالَ قَالِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یَسْتَجِیْبَ اللّٰہَ لَہٗ عِنْدَ الشَّدَائِدِ فَلْیُکْثِرِالدُّعَائَ فِی الرَّخَائِ۔ (رواہ الترمذی وقال ہذا حدیث غریب) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور فخر عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ خوشی ہو کہ اس کی دعا اللہ تعالیٰ سختیوں کے زمانہ میں قبول فرمائے اس کو چاہیے کہ خوش حالی کے زمانہ میں کثرت سے دعا کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۱۵۵بحوالہ ترمذی) تشریح: اس حدیث پاک میں دعا قبول ہونے کا ایک بہت بڑاگر بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ آرام و راحت اور مال و دولت اور صحت و تندرستی کے زمانہ میں برابر دعا کرتے رہنا چاہیے، جو شخص اس پر عمل پیرا ہوگا اس کے لیے اللہ جل جلالہ کی طرف سے یہ انعام ہوگا کہ جب کبھی کسی پریشانی میں مبتلا یا کسی مصیبت سے دوچار ہوگا یا کسی مرض میں گرفتار ہوگا اور اس وقت دعا کرے گا تو اللہ جل جلالہ ضرور اس کی دعا قبول فرمائیں گے، ان میں ان لوگوں کو تنبیہہ ہے جو آرام و راحت مال و دولت یا عہدہ کی برتری کی وجہ سے خدائے پاک کی یاد سے غافل ہوجاتے ہیں اور دعا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور جب مصیبت آگھرتی ہے تو دعا کرنی شروع کردیتے ہیں، پھر جب دعا قبول ہونے میں دیر لگتی ہے تو ناامید ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی، حالاں کہ اگر اس وقت دعا کرتے جب کہ خوشی میں مست تھے اور دولت کا گھمنڈ تھا تو ان کا اس زمانہ کا دعا کرنا آج کی دعا مقبول ہونے کا ذریعہ بن جاتا، غفلت اور دنیاوی مستی کے سبب اللہ کو بھول جانے کی وجہ سے بہت سخت حاجت مندی کے وقت دعا کی قبولیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔حضرت سلمانؓ کا ارشاد : حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا کہ جب بندہ چین اور خوشی کے زمانہ میں دعا کرتا ہے اور جب اسے کوئی مشکل درپیش ہوجاتی ہے تو اس وقت دعا کرتا ہے اس وقت فرشتے اس کی سفارش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو جانی پہچانی آواز ہے۔ ہمیشہ یہاں پہنچتی رہتی ہے اور جب بندہ چین اور خوشی کے زمانہ میں دعا نہیں کرتاا ور مصیبت آنے پر دست دعا پھیلاتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ اس آواز کو ہم تو نہیں پہچانتے پہلے تو سنی نہیں۔ یہ بات کہہ کر اس کی طرف سے بے توجہی برتتے ہیں اور دعا قبول ہونے کی سفارش نہیں کرتے۔ (صفۃ الصفوہ)