تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
نہیں ہے، یہ بڑی جہالت کی بات ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ (سفر حج میں) ہمارے قریب سے حاجی لوگ گزرتے تھے اور ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھیں ۔ (چوں کہ احرام میں عورت کو منہ پر کپڑا لگانا منع ہے اس لیے ہمارے چہرے کھلے ہوئے تھے اور چوں کہ پردہ کرنا حج میں بھی لازم ہے، اس لیے جب حاجی لوگ ہمارے برابر سے گزرتے تھے تو ہم بڑی سی چادر کو سر سے گرا کر چہرے کے سامنے لٹکالیتے اور جب حاجی لوگ آگے بڑھ جاتے تو ہم لوگ چہرہ کھول لیتے تھے۔ (ابوداؤد) معلوم ہوا کہ سفر حج میں بھی پردہ کا اہتمام کرنا لازم ہے۔ عورت جب حج کا احرام باندھ لے تو احرام کھولنے تک چہرہ پر کپڑا لگانا منع ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ چہرہ کھولے ہوئے حاجیوں کے سامنے پھرتی رہیں ۔ ایسی صورت اختیار کرنا ضروری ہے کہ چہرے پر کپڑا بھی نہ لگے اور نامحرموں سے پردہ بھی ہوجائے۔ جس طرح حضرت عائشہ ؓ نے اپنے سفر حج کا واقعہ بیان فرمایا جو ابھی مذکور ہوا۔ اس واقعہ سے مغرب زدہ لوگوں کی تردید بھی ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ چہرہ کھولنا نامحرموں کے سامنے جائز ہے۔ اسی لیے نقاب والا برقعہ اپنی عورتوں کو نہیں اوڑھاتے۔ اگر نامحرموں سے چہرہ چھپانا لازم نہ ہوتا تو حضرت عائشہ ؓ اور دیگر صحابی عورتیں حاجی لوگوں سے چہرہ چھپانے کا کیوں اہتمام کرتیں ۔ آج کل حاجی لوگ آپس میں عرفاتی بھائی اور حاجی اور حاجن عرفاتی بھائی بہن کہلانے لگتے ہیں اور پورے سفر میں حجنیں نامحرم حاجیوں کے سامنے بلاتکلف بے پردہ آتی جاتی اور اٹھتی بیٹھتی رہتی ہیں ۔ یہ بالکل خلاف شرع ہے۔ بے پردگی سفر حج میں بھی ممنوع ہے اور اس کے بعد بھی ممنوع ہے۔ نامحرم بہرحال نامحرم ہے۔ چاہے صوفی جی ہو چاہے پیر جی چاہے نمازی جی ہو چاہے حاجی جی۔عورت کو بغیر محرم حج کے لیے جانا گناہ ہے : ۷۶۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہُ ﷺ لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَئَ ۃٍ وَلَا تُسَافِرَنَّ امْرَئَ ۃٌ الِاَّ وَمَعَھَا مَحْرَمٌ فَقَالَ رَجَلٌ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُکْتُتِبْتُ فِیْ غَزْوَۃِ کَذَا وَکَذَا وَخرَجَتِ امْرَئَ تِیْ حَاجَّۃً قَالَ اذْھَبْ فَاحْجُجْ مَعَ امْرَئَ تِکَ۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ہرگز کوئی مرد کسی (اجنبی) عورت کے پاس تنہائی میں نہ رہے، اور ہرگز کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا۔ یارسول اللہﷺ میرا نام فلاں فلاں جہاد میں لکھا گیا ہے اور میری بیوی حج کے لیے نکل چکی ہے(چوں کہ یہ جہادفرض عین نہیں تھا اس لیے) آپ نے فرمایا کہ جاؤ بیوی کے ساتھ حج کرو۔ (مشکوٰۃ شریف بحوالہ بخاری و مسلم) تشریح: عورت کمزور بھی ہے اور فتنہ کا سبب بھی۔ اس لیے شریعت مطہرہ نے یہ قانون رکھا ہے کہ سفر دینی ہو یا دنیاوی ، دور کے سفر پر عورت بغیر شوہر یا بغیر محرم کے نہ جائے۔