تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بات سن لے، جس کا بات کرنے والوں کو علم بھی نہ ہو، اس کے بعد چغلی کھائے۔مجلس کی باتیں امانت ہوتی ہیں : جب کسی مجلس میں موجود ہو، خواہ ایک دو آدمی ہی ہوں وہاں اگر کسی کی غیبت ہورہی ہو تو منع کردے اور نہ روک سکے تو وہاں سے اٹھ جائے اور مجلس میں جو باتیں ہوں ان کو مجلس سے باہر کسی جگہ نقل نہ کرے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجلسیں امانت کے ساتھ ہیں۔ (مجلس میں جو بات کان میں پڑے اس کو ادھر ادھرنقل کرنا امانت داری کے خلاف ہے) ہاں اگرکسی مجلس میں کسی جان کو قتل کرنے کا مشورہ ہوا ہو یا زناکاری کا مشورہ ہوا ہو، یا کسی کا ناحق مال لینے کا مشورہ ہوا ہو تویہ بات نقل کردے۔ (ابودائود) ایک حدیث میں ارشاد ہے جب کوئی شخص کوئی بات کہے، پھر ادھر ادھر دیکھے تو اس کی یہ بات امانت ہے۔ (ترمذی، ابودائود) یعنی کسی شخص نے کسی سے کوئی خاص بات کہہ دی، پھر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ کسی نے سنا تونہیں، تو اس کا یہ دیکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی کو سنانا نہیں چاہتا۔ لہٰذا جس سے کہی ہے اس پر لازم ہے کہ وہ بات کسی سے نہ کہے، بہت سے لوگ مجلس کی بات یہاں سے وہاں پہنچادیتے ہیں۔ جو غلط فہمی اور لڑائی کا ذریعہ بن جاتی ہے، اور یہ شخص چغل خور بن جاتا ہے اور خود اپنا برا کرتا ہے، نہ بات نقل کرتا نہ خرابی کا ذریعہ بنتا۔ بعض مردوں اور عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جن دو شخص یا دو خاندانوں یا دو جماعتوں کے درمیان ان بن ہو ان کے ساتھ ملنے جلنے کاایسا طور طریق اختیار کرتے ہیں کہ ہر فریق کے خاص اور ہمدردبنتے ہیں، اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تم صحیح راہ پر ہو، اور ہم تمہاری طرف ہیں، ہر فریق ان کو ہمدرد سمجھ کر اپنی باتیں اگل دیتا ہے، پھر ہر طرف کی باتیں ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر پہنچاتے ہیں، جس سے دونوں فریق کے درمیان اور زیادہ لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ بدترین آدمی اس کو پائوگے جو (دنیا میں) دو چہرے والاہے، ان لوگوں کے پاس ایک منہ سے آتا ہے اور ان لوگوں کے پاس دوسرا منہ لے کر جاتاہے۔ (بخاری و مسلم) حضرت عمارؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا میں جس کے دو چہرے تھے، قیامت کے دن اس کی آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔ (سنن ابودائود) دو چہرہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ درحقیقت پیدائشی طور پر اس کے دو منہ تھے، بلکہ چونکہ ہر فریق سے اس طرح بات کرتا تھا جیسے خاص اسی کا ہمدرد ہے اس لیے ایسے شخص کو دو منہ والا فرمایا، گویا کہ فریق اول سے جو بات کی وہ اس منہ سے