تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوچکا ہے۔نکاح زندگی بھر نباہنے کے لیے ہوتا ہے : ان تفصیلات کو سامنے رکھ کر جب کسی مسلمان مرد کا کسی مسلمان عورت سے نکاح ہوجائے تو اس کے بعد زندگی بھر ایک دوسرے کو چاہنے اور نباہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کبھی کبھار فریقین میں سے کسی کو طبعی طور پر ایک دوسرے کی جانب سے کچھ ناگواری ہوجائے تو نفس کو سمجھا بجھا کر درگزر کردینا چاہیے۔ نباہنے کے لیے ایک امر ضروری ہے کہ مردوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی طرح سمجھایا ہے اور نباہنے کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ لَاَ یَفْرُکُ مُوْمِنٌ مُؤْمِنَۃً اِنْ کَرِہَ مِنْھَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْھَا اٰخَرَ یعنی کوئی مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے کیوں کہ اگر اس کی کوئی خصلت ناگوار ہوگی تو دوسری خصلت پسند آجائے گی (رواہ مسلم) اور عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ طلاق کا سوال نہ اٹھائیں۔ نباہنے کی کوشش کریں، جب کہیں دو چار برتن ہوتے ہیں تو آپس میں کھٹکتے ضرور ہیں۔ ایسے ہی جب دو آدمی ایک ساتھ رہتے ہیں تو کبھی کچھ نہ کچھ ناگواری کی صورت سامنے آہی جاتی ہے، اگر صبر نہ کیا جائے اور ناگواری کے سہنے کا مزاج نہ بنایا جائے تو آپس میں نباہ نہیں ہوسکتا اور آئے دن چھوٹ چھٹائو کا سوال ہوتا رہے گا، پھر طلاق کے بعد بچے ویران ہوں گے، ہر ایک کو اپنے لیے ایک جوڑا تلاش کرنا ہوگا، بچے ماں سے یا باپ سے یا دونوں سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ لہٰذا جہاں تک ممکن ہو زندگی بھر نباہ کرتے ہوئے چلتے رہنا چاہیے۔ بہت سی عورتیں مزاج کی تیز ہوتی ہیں، بات بات میں مرد سے لڑپڑتی ہیں۔ جو حقوق واجب نہیں ان کا شوہر سے مطالبہ کرتی ہیں۔ وہ پورا نہیں کرتا تو منہ پھلاتی ہیں اور اکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں، شوہر کی ناشکری کرتی رہتی ہیں، شوہر کوئی بات کہے تو طلاق کی بات سامنے لے آتی ہیں، عورتوں کے اسی مزاج کے پیش نظر شریعت نے عورت کو طلاق دینے کا اختیار نہیں دیا ورنہ ایک ایک دن میں کئی کئی بار طلاق دیا کرتیں، نکاح طلاق دینے کے لیے نہیں ہوتا زندگی بھر نباہنے کے لیے ہوتا ہے اگر طلاق دے دے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ لیکن طلاق دینا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔طلاق بغض کی چیز ہے : اسی لیے ایک حدیث میں آیا ہے کہ البغض الحلال الی اللہ الطلاق (ابودائود) یعنی حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ بغض اور نفرت کی چیز طلاق ہے، جب نباہنا اسلام کا مزاج ٹھہرا تو عورت کی جانب سے طلاق کا سوال اٹھانا سراسر غیر اسلامی فعل ہوگا، اسی لیے یہ ارشاد فرمایا کہ طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے والی