تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ترا کے میسر شود ایں مقام کہ باد و ستانت خلاف ست و جنگ مردوں سے زیادہ عورتوں میں اخلاقی کمزوری ہوتی ہے اور وہ پاس پڑوس کی دوسری عورتوں کے ساتھ نباہ کرکے رہ سکتی ہی نہیں، پڑوسنیوں میں وہ کیڑے ڈالے جاتے ہیں اور ایسی ایسی برائیاں نکالی جاتی ہیں کہ جن کی قلمی تصویر کھینچنے سے بھی انگلیاں انکار کرتی ہیں، ایک عورت کا قد چھوٹا ہے تو اسی پر طعنہ دیا جاتا ہے، دوسری کا رنگ کالا ہے تواسی کا نام دھرا جاتا ہے، تیسری ذرا لنگڑا کر چلتی ہے تو اسی کی غیبت کی جارہی ہے۔ حالاں کہ یہ چیزیں انسان کے اپنے اختیارسے باہر ہیں، جو پیدائشی ہیں، ان پر اعتراض کرنا خدائے پاک پر اعتراض کرنا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کو تعلقات خوش گوار رکھنے سے زیادہ بگاڑنے کے ڈھنگ آتے ہیں، ان کے اس مزاج کے پیش نظر حضور اقدسﷺ نے آپس میں ہدیہ کا لین دین رکھنے کی ترغیب دی، لینا دینا بڑی اچھی خصلت ہے، ایک حدیث میں ارشاد ہے: تَھَادُوْا فَاِنَّ اَلْھَدِیَّۃَ تُذْھِبُ الضَّغَائِنَ۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۲۶۱) ’’آپس میں ہدیہ لیا دیا کرو، کیوں کہ وہ کینوں کو دور کرتا ہے۔‘‘کسی کا ہدیہ حقیر نہ جانو : اس عمدہ خصلت کو اختیارکرنے میں بھی شیطان بہت سے رخنے ڈال دیتا ہے اور ایسی نفسانیت کی باتیں سمجھاتا ہے جو ہدیہ دینے سے باز رکھتی ہیں، چناں چہ بہت سی عورتوں پر یہ نفسانیت سوار ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ذرا سی چیز کا کیا دینا؟ کسی کو کچھ دے تو ٹھکانا کی چیز تو دے دو، جلیبی کیا بھیجیں، کوئی کیا کہے گا؟ اس سے تو نہ بھیجنا ہی بہتر ہے۔ اسی طرح ہدیہ قبول کرنے میں بھی شیطان چھوٹائی بڑائی کا سوال سمجھا دیتا ہے۔ اگر کسی پڑوسی نے معمولی چیز ہدیہ میں بھیج دی تو کہتی ہیں کہ نگوڑی نے کیا بھیجا ہے نہ اپنی حیثیت کا خیال کیا نہ ہماری عزت کا، بھیجنے میں شرم بھی نہ آئی، گویا بھیجنے کا شکریہ تو درکنار طعن و تشنیع کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے اور کئی کئی دن غیبتیں ہوتی رہتی ہیں، اگر کئی سال کے بعد کسی بات پر ان بن ہوگئی تو یہ بات بھی دہرادی کہ تو نے کیا بھیجا تھا، ذرا سی کڑھی میں ایک پھلکی ڈال کر۔ قربان جایئے اس حکیم و معالج (ﷺ) کے جس کو خالق کائنات جل مجدہ نے دلوں کی بیماریوں سے آگاہ فرمایا اور ساتھ ہی اس کے علاج بھی بتائے۔ معالج نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور اندر کا چور پکڑا اور فرمایا: ’’کوئی پڑوسن کسی پڑوسن کے لیے کسی چیز کے ہدیہ کو حقیر نہ جانے۔‘‘ اللہ اللہ! کیسا جامع جملہ ہے۔ حدیث کی شرح لکھنے والے عالموں نے بتایا ہے کہ حدیث بالا کے الفاظ سے دونوں طرح کا مطلب نکل سکتا ہے۔ دینے والی دیتے وقت کم نہ سمجھے، جو میسر ہو دے دے اور جس کے پاس پہنچی وہ بھی حقیر نہ جانے،