تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ عورت کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ (نفل) روزہ رکھے جب کہ اس کا شوہر گھر پر ہو، ہاں اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی کو گھر میں آنے کی اجازت دے۔ ہاں اگر شوہر کسی کے بارے میں اجازت دے تو عورت بھی اجازت دے سکتی ہے (کیوں کہ مسلمان شوہر جس کے آنے کی اجازت دے گا وہ عورت کا محرم ہوگا)۔ (مسلم شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف ص ۱۷۸) تشریح: دین اسلام کامل اور مکمل دین ہے، اس میں دونوں طرح کے حقوق یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی رعایت رکھی گئی ہے۔ جس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی عبادت ہے، اسی طرح حقوق العباد کا ادا کرنا بھی عبادت ہے، اس حدیث پاک میں حقوق العباد کی نگہداشت کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں اور آپس میں ایک ایسا تعلق ہے جو روزے میں نہیں ہوتا۔ اگر کوئی عورت روزہ پر روزہ رکھتی چلی جائے اور شوہر کے خاص تعلق کا خیال نہ رکھے تو گناہ گار ہوگی، شوہر کو خوش رکھنااور اس کے حقوق کا دھیان رکھنا بھی عبادت ہے۔ بعض عورتوں کو دیکھا گیا ہے کہ روزہ پر روزہ رکھتی چلی جاتی ہیں اور روزانہ روزہ رکھنے کی عادت ڈال لیتی ہیں۔ دن میں روزہ، رات کو تھک کر پڑگئیں، شوہر بے چارے کا کوئی دھیان نہیں، یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے۔ عورتوں کے لیے رسول اللہﷺ نے تنبیہ فرمائی کہ کسی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر گھر پر موجود ہو تو اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھے۔ شوہر اگر اجازت دے تو نفلی روزہ رکھے، البتہ روزانہ روزہ رکھنا پھر بھی منع ہے۔روزانہ روزہ رکھنے کی ممانعت : رحمتہ للعالمینﷺ نے فرمایا کہ جس نے روزانہ روزہ رکھا اس نے نہ روزہ رکھا نہ بے روزہ رہا (مسلم شریف)۔ مطلب یہ ہے کہ روزانہ روزہ رکھنے سے نفس کو عادت ہوجاتی ہے، عادت ہوجانے سے مشقت نہیں ہوتی۔ جب مشقت نہ ہوئی تو روزہ کا مقصد ختم ہوگیا، اب یوں کہا جائے گا کہ کھانے پینے کے اوقات بدل دیئے۔ اس صورت میں عبادت کی شان باقی نہ رہے گی، اگر کسی سے ہوسکے تو ایک دن روزہ رکھے، ایک دن بے روزہ رہے۔ یہ بہت فضیلت کی بات ہے۔ لیکن شرط وہی ہے کہ شوہر کی اجازت ہو اور اس قدر بے طاقت نہ ہوجائے کہ دوسری عبادات اور ادائیگی حقوق میں فرق آئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بڑے درجے کے صحابی تھے۔ یہ روزانہ روزہ رکھتے تھے اور راتوں رات نفل پڑھتے۔ سرور عالمﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ روزہ بھی رکھو اور بے روزہ بھی رہو، راتوں میں نفل نماز میں بھی کھڑے رہا کرو اور سویابھی کرو۔ کیوں کہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے۔ اور تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے اور جو لوگ تمہارے پاس آئیں ان کابھی تم پر حق ہے۔ (بخاری و مسلم)