تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے (اس لیے اندر بلالیا ہے)یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اچھی طرح خیال کرلو کہ تمہارے دودھ شریک بھائی کون لوگ ہیں کیوں کہ شرعی رضاعت (دودھ سے آجانے والی حرمت) اس وقت موثر ہوتی ہے جب کہ بھوک کی وجہ سے ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح: ص ۲۷۳ بحوالہ بخاری و مسلم) تشریح: مطلب یہ ہے کہ شرعاً دودھ پلانے کا زمانہ مقرر ہے۔ یعنی دو سال کی عمر کے اندر اندر بچہ اور بچی کو دودھ پلایا جاسکتا ہے۔ اس عمر میں جس نے دودھ پیا اس کا دودھ پینا حرمت رضاعت کا سبب ہے۔ اس کے بعد دودھ پلانا ہی حرام ہے اور اگر کسی نے اس عمر کے بعد بھی کسی عورت کا دودھ پی لیا ہے تو اس سے وہ کسی کا نہ محرم بنے گا نہ اس عورت کی ماں بہن اور اولاد سے اس کا نکاح حرام ہوگا چوں کہ دودھ سے حرمت ثابت ہوتی ہے، اس لیے عورتوں پر بہت احتیاط لازم ہے، اپنی اولاد کے سوا بلاضرورت دوسروں کے بچوں کو دودھ نہ پلائیں۔ فائدہ: بچہ یا بچی کی عمر چاند کے حساب سے دو سال پورے ہونے کے اندر اندر جو کسی عورت کا دودھ پلادیا جائے تو سب اماموں کے نزدیک حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ یعنی اس کی وجہ سے وہ سب رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو دودھ کی وجہ سے حرام ہیں، البتہ حضرت امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ڈھائی سال کے اندر اندر دودھ پلانے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ احتیاط کا تقاضا ہے کہ امام صاحب کے قول پر عمل کیا جائے۔ دو سال پورے ہوجائیں تو کسی بچہ یا بچی کو دودھ ہرگز نہ پلائیں، لیکن اگر کسی نے پلانے کی غلطی کردی تو ڈھائی سال کے اندر جو دودھ پلایا ہو تو اس کو حرمت رضاع میں موثر مانا جائے البتہ اس کے بعد جو دودھ دیا ہو حرمت رضاع میں اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اور اس کی وجہ سے رشتے حرام نہ ہوں گے۔کسی مرد سے نکاح کرنے کے لیے اس کی پہلی بیوی کو طلاق نہ دلائیں : ۱۴۹۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لَا تَسْاَلِ الْمَرْأَۃُ طَلَاقَ اُخْتِھَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَھَا وَلْتَنْکِحُ فَاِنَّ لَھَا مَاقُدِّرَلَھَا۔ (بخاری و مسلم) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا سوال نہ کرے تاکہ اس کے پیالہ کو خالی کردے اور چاہیے کہ اپنا نکاح (کسی دوسرے مسلمان مردسے) کرلے، کیوں کہ جو اس کی تقدیر میں ہے وہ ضرور اس کو ملے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح: ص ۲۷۱ بحوالہ بخاری و مسلم) تشریح: اس حدیث میں بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کوئی کسی کا برا نہ چاہے، جب کوئی کسی کو نکاح کا پیغام دے تو اسے اپنی صواب دید کے مطابق ہاں یا نہ کا جواب دے دینا چاہیے، اگر اس مرد کے نکاح میں پہلے سے کوئی عورت ہو تو اپنا نکاح کرنے کے لیے پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط نہ لگائے تاکہ شوہر سے جو کچھ اس کو ملتا ہے اس سے اس کا پیالہ خالی کردے یعنی اسے محروم کرکے خود اس منفعت کو اپنے لیے مخصوص کرلے۔