تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلاصہ کلام : خلاصہ یہ کہ نابالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح خود ان کے اپنے ایجاب و قبول سے نہیں ہوتا۔ البتہ ولی کے ایجاب و قبول سے منعقد ہوجاتا ہے اور ولی کو لڑکے اور لڑکی کی مصلحت سے ان کانکاح کردینا بھی جائز ہے۔ مگر خود رقم بٹورنے کے لیے یا دوسری کسی ذاتی منفعت کے لیے بالغ یا نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کرکے ان کو مصیبت میں پھنسا دینا کسی طرح جائز نہیں۔ بالغ لڑکا اور لڑکی شرعاً خود مختار ہوتے ہیں۔ ولی کے لیے جائز نہیں ہے کہ ان کو کسی جگہ نکاح کرنے پر مجبور کرے۔ ہاں بالغ لڑکا یا لڑکی اگر ولی کو وکیل بنادے کہ فلاں جگہ میرا نکاح کردو تو وکیل ہوکر ایجاب و قبول کرسکتا ہے اور اگرمطلق نکاح کا وکیل بنایا ہو، کوئی جگہ مقرر نہ کی ہو تو اس کی مصلحت اور خیرخواہی پر نظر رکھنا لازم ہے۔ اور پہلی صورت میں بھی ولی ان کی خیرخواہی ملحوظ رکھے۔ اگر لڑکا لڑکی کسی ایسی جگہ نکاح کے لیے وکیل بناتے ہیں جہاں ان کا نکاح خلاف مصلحت ہو تو ان کو سمجھادیں اوردوسری اچھی جگہ رشتہ نکالنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر انھوں نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا(جس میں شرعی جواز کی گنجائش ہو) تو نکاح بہرحال ہوجائے گا۔ سب مسائل خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔تقویٰ کے بعد سب سے زیادہ بہتر چیز نیک عورت ہے : ۱۳۶۔ وَعَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ مَااسْتَفَادَ الْمُوْمِنُ بَعْدَ تَقْوَی اللّٰہِ خَیْرًالَّہٗ مِنْ زَوْجِۃٍ صَالِحَہٍ اِنْ اَمَرَھَا اَطَاعَتْہٗ وَاِنْ نَظَرَ اِلَیْھَا سَرَّتْہُ وَاِنْ اَقْسَمَ عَلَیْھَا اَبَرَّتْہٗ وَاِنْ غَابَ عَنْھَا نَصْحَتْہُ فِیْ نَفْسِھَا وَمَالِہٖ۔ (رواہ ابن ماجہ) حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن بندہ نے تقویٰ کی نعمت کے بعد کوئی ایسی بھلائی حاصل نہیں کی جو اس کے حق میں نیک بیوی سے بڑھ کر ہو۔ (پھر نیک بیوی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ) اگر شوہر اسے حکم کرے (جو خلاف شرع نہ ہو) تو اس کا کہا مانے اور شوہر اس کی طرف دیکھے تو شوہر کو خوش کرے اور اگر شوہر کسی کام کے بارے میں قسم کھا بیٹھے کہ ضرورتم ایسا کروگی (اور وہ کام شرعاً جائز ہو) تو اس کی قسم سچی کردے اور اگر وہ کہیں چلا جائے اور یہ اس کے پیچھے گھر میں رہ جائے تو اپنی جان اور اس کے مال کے بارے میں اس کی خیر خواہی کرے۔ (ابن ماجہ) تشریح: اس حدیث میں ارشاد فرمایا کہ تقویٰ کی نعمت بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر کسی کو یہ نعمت میسر ہوجائے تو بہت مبارک ہے۔ کیوں کہ اصل دین داری تقویٰ ہی کا نام ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ تقویٰ فرائض و واجبات کے ادا کرنے اور حرام و ممنوع کاموں سے پرہیز کرنے کا نام ہے۔ اس صفت کی وجہ سے بندہ خدائے پاک کا محبوب بن جاتا ہے۔