تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا ثواب بھی اور ہزاروں گناہوں کی معافی بھی ہوجائے کس قدر نفع عظیم ہے۔شب قدر کی تاریخیں : شب قدر کے بارے میں حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، لہٰذا رمضان کی ۲۱ ویں، ۲۳ ویں، ۲۵ ویں، ۲۷، ویں، ۲۹ ویں رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کا خاص اہتمام کریں، خصوصاً ۲۷ ویں شب کو ضرور جاگیں، کیوں کہ اس دن شب قدر ہونے کی زیادہ امید ہوتی ہے۔ حضرت عبادہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ایک دن اس لیے باہر تشریف لائے کہ ہمیں شب قدر کی اطلاع دیں، مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا، آں حضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی اطلاع دوں مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہورہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعین میرے ذہن سے اٹھالی گئی، کیابعید ہے کہ یہ اٹھالینا اللہ کے علم میں بہتر ہو۔ (بخاری)لڑائی جھگڑے کا اثر : اس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ آپس کا جھگڑا کس قدر برا عمل ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ پاک نے نبی اکرمﷺ کے قلب مبارک سے شب قدر کی تعیین اٹھالی، یعنی کس رات کو شب قدر ہے مخصوص کراکے اس کا علم جو دے دیا گیاتھا وہ قلب سے اٹھالیا گیا، اگرچہ بعض وجوہ سے اس میں بھی امت کا فائدہ ہوگیا، جیسا کہ ان شاء اللہ ہم ابھی ذکر کریں گے، لیکن سبب آپس کا جھگڑا بن گیا، جس سے آپس میں جھگڑے کی مذمت کا پتہ چلا۔شب قدر کی تعیین نہ کرنے میں مصالح : علمائے کرام نے شب قدر کو پوشیدہ رکھنے یعنی مقرر کرکے یوں نہ بتانے کے بارے میں کہ فلاں کو شب قدر ہے چند مصلحتیں بتائی ہیں۔ اوّل یہ کہ اگر تعیین باقی رہتی تو بہت سے کوتاہ طبائع دوسری راتوں کا اہتمام بالکل ترک کردیتے، اور صورت موجودہ میں اس احتمال پر کہ شاید آج ہی شب قدر ہو، متعدد راتوں میں عبادت کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے۔ دوسری یہ کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو معاصی یعنی گناہ کیے بغیر نہیں رہتے۔ تعیین کی صورت میں اگر باوجود معلوم ہونے کے معصیت کی جرات کی جاتی تو یہ بات سخت اندیشہ ناک تھی۔ تیسری یہ کہ تعیین کی صورت میں اگر کسی شخص سے وہ رات چھوٹ جاتی، تو آئندہ راتوں میں افسردگی کی وجہ سے پھر کسی رات کا جاگنا بشاشت کے ساتھ