تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی توفیق دے۔بالغ لڑکی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا : (۱۲۷) وَعَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَا تُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَامَرَ وَلَا تَنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَاذَنَ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ وَکَیْفَ اِذْنُھَا قَالَ اَنْ تَسْکُتْ۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس عورت کا ایک بار نکاح ہوچکا ہو اور پھر شوہر کی موت یا طلاق مل جانے کی وجہ سے عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا ہو تو اس کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے وضاحت کے ساتھ زبان سے اجازت نہ لے لی جائے اور جس (بالغ) لڑکی کا نکاح پہلے نہیں ہوا ہے۔ اس کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اس کی اجازت کیسے ہوگی۔ (وہ تو شرم کی وجہ سے بول بھی نہ سکے گی۔) آپ نے فرمایا۔ اس کی جانب سے یہی اجازت سمجھی جائے گی کہ جب اس سے اجازت لی جائے تو خاموش رہ جائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح: ص ۲۷۰ بحوالہ بخاری و مسلم) تشریح: نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کا ولی اپنے اختیار سے کرسکتا ہے۔ نابالغ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، بلکہ اگر وہ انکار کرے اور ولی نکاح پڑھادے تب بھی نکاح ہوجائے گا اور ولی کو شریعت نے یہ اختیار اس لیے دیا ہے کہ بعض اوقات اچھے خاندان میں مناسب رشتہ مل جاتا ہے اور بلوغ کا انتظار کرنے میں اس رشتہ کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لڑکے اور لڑکی کی بھلائی اور بہتری کے لیے اگر نابالغی میں اس کا نکاح کردیا جائے، جو اصول شریعت کے مطابق ہو تو درست ہے۔ ہاں اگر لڑکی کا فائدہ ملحوظ نہ ہو بلکہ ولی (خواہ باپ دادا ہی ہو) اپنی ذاتی مصلحت یا دنیاوی منفعت کے لیے نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کردے تو یہ درست نہیں ہے۔ بعض حالت میں یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا اور بعض حالات میں منعقد تو ہوجاتا ہے مگر لڑکے اور لڑکی کو مسلم حاکم کے یہاں درخواست دے کر نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں عوام و خواص بڑی افراط و تفریط میں مبتلا ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ قانون بنا رکھا ہے کہ نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ قانون بالکل خلاف شرع ہے۔ جب شریعت نے نابالغ لڑکے اور لڑکی کے نکاح کو ولی کے ایجاب و قبول سے جائز رکھا ہے تو اب اس جائز کو بدل کر ناجائز قرار دینے والا کون ہے؟ یہ تو دین میں مداخلت ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے اسے خود اپنے عمل سے جائز قرار دیا اور حضرت عائشہؓ سے اس وقت نکاح فرمایا جب ان کی عمر چھ سال کی تھی۔ گو رخصتی بعد میں ہوئی۔ اس شرعی جائز کے خلاف قانون بنانا شریعت سے باغی ہونا ہے۔ گو نابالغی میں نکاح کردینا کوئی فرض و واجب بھی نہیں ہے، چھوٹے بچوں کا نکاح کردینے سے