تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بندا، گھسیٹا، چھجو : بعض عورتیں ٹوٹکہ ٹونہ کرتی ہیں اور بچوں کے نام اسی عنوان سے رکھ دیتی ہیں۔ مثلاً کسی بچے کے کان میں ٹوٹکے کے لیے بندہ ڈالا تو وہ بندہ ہوگیا اور کسی کو چھاج میں رکھ کر گھسیٹا گیا تو وہ گھسیٹا یا چھجو ہوگیااور اسی طرح بہت سی حرکتیں کرکے نام رکھتی ہیں۔ یہ سب شرک ہے۔ بہت سے خراب سے نام احقر نے خود سنے ہیں اور ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے۔ ایک شخض کا نام کوڑا تھا۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ اس طرح کا نام عورتیں یہ سمجھ کر رکھتی ہیں کہ ایسا نام رکھنے سے بچہ زندہ رہے گا۔ یہ بھی شرک ہے اور اب ایک مصیبت اور چلی ہے وہ یہ کہ بچوں کے انگریزی نام رکھے جاتے ہیں اور بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ باپ کو ابا کے بجائے ڈیڈی کہا جائے اور نام رکھنے کا اصول یہ بنا رکھا ہے جو نالائق، بے شرم، بے حیا، بے دین مرد اور عورت سینما کی فلموں میں کام کرتے ہیں، ان کے ناموں پر بچوں کے نام رکھے جاتے ہیں۔ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ والے بزرگوں کی یادگار باقی رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ بے حیا، بے شرم لوگوں کے ناموں کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہٖ رَاجِعُوْنَ۔بچوں کو دینی زندگی پر ڈالنے کا حکم : دوسری نصیحت اولاد کو ادب سکھانے کے بارے میں فرمائی۔ پسندیدہ اعمال اور بلند اخلاق یہ سب ادب کے ذیل میں آجاتے ہیں۔ فرائض کا اہتمام کرنا اور ممنوعات سے بچنا آداب عبودیت میں سے ہے اور انسانوں کے ساتھ اس طریقہ سے پیش آنا کہ کسی کو تکلیف نہ ہو یہ آداب معاشرت میں سے ہے۔ آج کل لوگ اپنی اولاد کو نہ اللہ کی راہ پر لگاتے ہیں نہ آداب عبودیت سکھاتے ہیں اور نہ اسلامی معاشرت کے آداب، البتہ یورپ اور امریکہ کی بے حیا قوموں کے طرز زندگی کو اپناتے ہیں اور بچوں کو انہی کے طور طریق سکھاتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا بچہ کلمہ طیبہ اور سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ نہیں سنا سکتا۔ لیکن پتلون پہننے اور ٹائی لگانے کے آداب سے واقف ہوتا ہے۔ آہ ماں باپ اپنی اولاد کا کیسے کیسے خون کررہے ہیں۔ مسلمان ہونے کے بھی مدعی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ طور طریق، سج دھج، رنگ ڈھنگ، رفتار گفتار اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بے شرم انگریزوں کے مقتدی اور منبع بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو سمجھ دے۔نکاحوں میں تاخیر کرنے کے اسباب : تیسری نصیحت حدیث بالا میں یہ فرمائی کہ جب اولاد بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردیا جائے۔ آج کل اس نصیحت سے بہت غفلت ہورہی ہے۔ انگریزی پڑھنے اور امتحان دینے کی جو مصیبت سوار ہوگئی ہے اس نے اس نصیحت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ تیس پینتیس سال کی لڑکیاں ہوجاتی ہیں، ان کی شادی نہیں ہوتی۔ ایک تو اس وجہ سے لڑکیاں بھی ڈگریوں کی دوڑ دھوپ میں