تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرتے ہیں: ۶۸۔ وِعَنْ اُمِّ عُمَارَۃَ بِنْتِ کَعْبٍ ؓ اَنَّ النَّبِیِّ ﷺ دَخَلَ عَلَیْھَا فَدَعَتْ لَہٗ بِطَعَامٍ فَقَالَ لَھَا کُلِّیْ فَقَالَتْ اِنِّیْ صَائِمَۃٌ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ اِنَّ الصَّائِمِ اِذَا اُکِلَ عِنْدَہٗ صَلَّتْ عَلَیْہِ الْمَلٰئِکَۃُ حَتّٰی یَفْرَغُوْا۔ (رواہ احمد والترمذی وغیرھما) حضرت ام عمارہ ؓ نے بیان فرمایا کہ آں حضرتﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپ کے لیے کھانا منگایا۔ آپ نے فرمایا کہ تم (بھی)کھاؤ!میں نے عرض کیا میں روزہ سے ہوں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ بلاشبہ جب روزہ دار کے پاس کھایا جائے تو اس کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ کھانے والے فارغ ہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۱۸۱، بحوالہ احمد وترمذی) تشریح: روزہ خود صبر کا نام ہے۔ انسان جب روزہ کی نیت کرلیتا ہے تو یہ طے کرلیتا ہے کہ سورج چھپنے تک کوئی چیز نہیں کھاؤں گا پیوں گا، پھر جب روزہ دار کے سامنے کوئی شخص کھانے لگے تو روزہ دار کے صبر کی مزید فضیلت بڑھ جاتی ہے کیوں کہ دوسرے کو کھاتا دیکھ کر جو نفس میں خصوصی تقاضا پیدا ہوتا ہے اس کو دباتا ہے اور روزہ پورا کیے بغیر کچھ نہیں کھاتا پیتا۔ اس کے اس خصوصی صبر کی وجہ سے یہ خصوصی فضیلت دی گئی ہے کہ کھانے والا جب تک اس کے پاس کھائے اس کے لیے فرشتے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ فائدہ: حضرت ام عمارہ ؓ (عمارہ کی والدہ) بڑی فضیلتوں والی صحابیہ ہیں جن سے حدیث بالا کی روایت کی گئی ہے۔ انھوں نے جہادوں میں بھی شرکت کی، اپنے شوہر زید بن عاصم ؓ کے ساتھ غزوۂ احد میں شریک ہوئیں۔ پھر بیعت الرضوان میں شریک ہوئیں، پھر جنگ یمامہ میں شرکت کی اور دشمنوں میں ایسی لڑائی لڑی کہ خود ان کے جسم میں بارہ جگہ زخم آگئے۔ بہت سے لوگوں نے ان سے حدیث کی روایت کی ہے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ماہ شعبان کے روزے اور دیگر اعمال، شعبان میں روزوں کی کثرت : ۶۹۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ ؓ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ ﷺ یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ لَا یُفْطِرُ وَیُفْطِرُ حَتّٰی نَقُوْلَ لَا یَصُوْمُ وَمَا رَئَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ ﷺ اِسْتَکْمَلَ صِیَامُ شَھْرٍ قَطُّ اِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَاَیْتُہٗ فِیْ شَھْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِیْ شَعْبَانَ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَتْ کَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ کُلَّہٗ وَکَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ اِلَّا قَلِیْلاًَ۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ مسلسل (نفلی) روزے رکھتے چلے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا تھا کہ اب آپ بے روزہ نہیں رہیں گے اور جب روزے رکھنا چھوڑتے تو اتنے دن چھوڑتے چلے جاتے تھے کہ ہمیں خیال گزرنے لگتا تھا کہ اب آپ نفلی روزہ نہیں رکھیں گے اور فرماتی ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ حضورﷺ نے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں سوائے رمضان کے اور میں نے حضور اقدسﷺ کو نہیں دیکھا کہ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی دوسرے مہینے میں (نفلی) روزے رکھے