تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں اپنے نام کے ساتھ نسبی نسبت کا کلمہ ضرو رلگاتے ہیں، صدیقی، فاروقی، عثمانی، حسنی، حسینی، ایوبی، نعمانی، فریدی اور اسی طرح کی بہت سی نسبتیں ہیں جو ناموں اور دستخطوں کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں، ان کے لکھنے اور لکھانے والوں میں بہت کم ایسے ہیں جن کا مقصد اظہار واقعہ یا اور کوئی صحیح نیت ہو، ورنہ بیشتر ایسے لوگ ہیں جو نسبی بڑائی بگھارنے کے لیے ان نسبتوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، باستثنائے چند افراد یا چند خاندانوں کے ان نسبتوں پر اصرار کرنے والے ایسے لوگ ہیں جو عمل کے اعتبار سے حد درجہ گرے ہوئے ہیں، اور دین کے ضروری عقائد و ارکان سے بھی غافل بلکہ ناواقف ہوتے ہیں، جن حضرات کی طرف نسبتیں کرتے ہیں اگرذرا دیر کے لیے اس عالم میں تشریف لے آئیں تو اپنی طر ف نسبت کرنے والوں کا حال بد دیکھ کر (جو نماز غارت کرنے، روزہ کھانے، رشوت لینے، سینما دیکھنے، زکوٰۃ روکنے اور اسی طرح کے بدترین عیوب و قبائح کی شکل میں عیاں ہوتا رہتا ہے) ان کی صورت دیکھنا بھی گوارا نہ کریں، اور دورہی سے در در پھٹ پھٹ کریں۔ جو شیوخ و سادات کے خاندان وسیع زمین پر آباد ہیں، اور جو اکابر صوفیاء یا علماء کے نسب سے سلسلہ جوڑنے والے گھرانے اس دنیا میں بستے ہیں، نسب پر غرور کی وجہ سے دوسرے خاندانوں کے افراد کو بہت ہی حقیر جانتے ہیں اور زندگی کا جائزہ لو تو جو خرابیاں اور گناہ دوسرو ں میں ہیں وہی ان شریف بننے والوں میں نظر آتے ہیں۔ غریب بہ قدر غربت اور امیر بہ قدر سرمایہ مصیبتوں اور گناہوں میں ملوث ہیں۔ دینی تعلیم حاصل کرنے اور قرآن و حدیث سے محبت کرنے میں بھی ان ہی کا حصہ زیادہ ہے جو نسب کے اعتبار سے کم سمجھے جاتے ہیں، شریف خاندان والے بس نسب پر اترالیتے ہیں، مگر محبت لندن اور امریکہ سے رکھتے ہیں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو آباد رکھنے میں پیش پیش ہیں، دینی مدرسے اکثر غیر معروف خاندانوں کے افراد سے یا ان گھرانوں کی اولاد سے آباد رہتے ہیں جو بااعتبار نسب کم مرتبہ کے سمجھے جاتے ہیں۔نسب پر فخر کرنے والے آخرت سے بے خبر ہیں : بعض قوموں میں نسبی غرور اور تکبر کا یہ عالم دیکھنے میں آیا کہ کوئی ایسا مسلمان اگر ان کو سلام کرے جو نسبی حیثیت سے کم سمجھا جاتا ہو تو اس کے سلام کا جواب دینے کو عار سمجھتے ہیں، بلکہ بعض مواقع پر اس کو سزا دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم کو سلام کرنا ہماری برابری کا دعویٰ ہے، یہ کیونکر برداشت ہو، اگر کوئی سلام کرے تویوں کہے کہ ’’میاں سلام‘‘ ’’السلام علیکم‘‘ نہ کہے، کیسی جہالت اور نخوت ہے۔ یہ مغرور اور متکبر ذرا آخرت کے منظر کا تصور باندھیں، اور یہ سوچیں کہ دنیا کے تمام انسانوں کو آخرت کے میدان میں پہنچنا ہے، اور اعمال کی جانچ ہونے کے لیے موقف حساب میں کھڑا ہونا ہے، اور پھر اعمال کے اعتبار سے جنت یا دوزخ میں جانا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس