تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لوگوں کو جانے سے پہلے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ (مشکوٰۃ ص ۱۶۰ بحوالہ بخاری و مسلم)صدقۂ فطر کس پر واجب ہے : صدقہ فطر اس شخص پر واجب ہے جس پر زکوٰۃ فرض ہے یاساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت اس کی ملکیت ہو، اگر سونا چاندی اور نقد رقم نہ ہو اور ضرورت سے زائد سامان موجود ہو ، جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی بن سکتی ہو تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔ زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مال نصاب پر چاند کے حساب سے ایک سال گزر جائے لیکن صدقۂ فطر واجب ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔ اگر رمضان کی تیس تاریخ کو کسی کے پاس مال آگیا جس پر صدقۂ فطر واجب ہوجاتا ہے تو عیدالفطر کی صبح صادق ہوتے ہی اس پر صدقۂ فطر واجب ہوجائے گا۔صدقۂ فطر کے فائدے : صدقۂ فطر ادا کرنے سے ایک حکم شرعی کے انجام دینے کا ثواب تو ملتا ہی ہے اس کے ساتھ دو مزید فائدے اور ہیں : اوّل یہ کہ صدقۂ فطر روزوں کو پاک صاف کرنے کا ذریعہ ہے، روزے کی حالت میں جو فضول باتیں کیں اور خراب اور گندی باتیں زبان سے نکلیں صدقۂ فطر کے ذریعے روزے ان چیزوں سے پاک ہوجاتے ہیں ۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ عید کے دن ناداروں اور مسکینوں کی خوراک کا انتظام ہوجاتا ہے اور اسی لیے عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، دیکھو کتنا سستا سودا ہے کہ محض دو سیر گیہوں دینے سے تیس روزوں کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ یعنی لایعنی اور گندی باتوں کی روزے میں جو ملاوٹ ہوگئی اس کے اثرات سے روزے پاک ہوجاتے ہیں ۔ گویا صدقۂ فطر ادا کردینے سے روزوں کی قبولیت کی راہ میں کوئی اٹکانے والی چیزباقی نہیں رہ جاتی ہے۔ اس لیے بعض بزرگوں نے فرمایا کہ اگر مسئلہ کی رو سے کسی پر صدقۂ فطر واجب نہ ہو تب بھی دے دینا چاہیے۔ خرچ بہت معمولی ہے اور نفع بہت بڑا ہے۔ فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوۃَ الْفِطْرِ طُھْرًا لِلصِّیَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْنِ۔ (رواہ ابو داؤد)کس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کیا جائے ؟: صدقۂ فطر بالغ عورت پر اپنی طرف سے دینا واجب ہے۔ شوہر کے ذمہ اس کا صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری نہیں اور جو نابالغ اولاد ہے اس کی طرف سے والد پر صدقۂ فطر دینا واجب ہے۔ بچوں کی والدہ کے ذمے بچوں کا صدقۂ فطر دینا لازم نہیں ہے۔ اگر بیوی کہے کہ میری طرف سے ادا کردو اور شوہر بیوی کی طرف سے ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔ اگرچہ اس