تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہت زیادہ پختہ امید رکھیں اور یقین جانیں کہ ہمارے لیے صحت و عافیت بھی خیر ہے اور دکھ تکلیف بھی بہتر ہے، اصل تکلیف تو کافر کو پہنچتی ہے۔ تکلیف بھی پہنچی اور ثواب بھی نہ ملا۔ مومن کی تکلیف، تکلیف نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مصیبت و تکلیف اور مرض کی دعا کریں، یا شفا کی دعانہ مانگیں، کیوں کہ جس طرح صبر میں ثواب ہے، شکر میں بھی ثواب ہے۔ سوال تو عافیت ہی کا کریں اور کرتے رہیں اور تکلیف پہنچ جائے تو صبر کریں۔ بہت سے لوگ جو آرام وراحت اور دکھ تکلیف کی حکمت اور اس کے بارے میں قانون الٰہی کو نہیں جانتے، بے تکی باتیں کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ جہاں کی ساری مصیبتیں مسلمان قوم ہی پر آپڑتی ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ کافروں کو محلات و قصور اور مسلمان کو صرف وعدہ حور، کبھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غیروں کو خوب نوازا ہے اور اپنے کو فقر و فاقہ اور دوسری مصیبتوں میں رکھا ہے۔ حالاں کہ اپنا ہونے ہی کی وجہ سے مسلمانوں کو تکالیف میں مبتلا فرمایا جاتا ہے، تاکہ ان کے گناہ معاف ہوں۔ درجات بلند ہوں اور آخرت میں گناہوں پرسزا نہ ہو، درحقیقت یہ بہت بڑی مہربانی ہے کہ دنیا کی تھوڑی بہت تکلیف میں مبتلا کرکے آخرت کے عذاب شدید سے بچا دیا جائے اورکافروں کو چونکہ آخرت میں کوئی نعمت نہیں ملنی، کوئی آرام نصیب نہیں ہونا بلکہ ان کے لیے صرف عذاب ہی عذاب ہے اس لیے ان کو دنیا زیادہ دے دی جاتی ہے او ران پر مصیبتیں کم آتی ہیں، اگر کسی کافر نے خدمت خلق وغیرہ کا کوئی کام کیا ہے تو اس کا عوض اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے تاکہ آخرت میں اسے ذرا سی خیر اور معمولی ساآرام بھی نہ ملے اور ابدالاباد ہمیشہ دوزخ میں رہے۔ اولئک قوم عجلت لھم طیباتھم فی الحیوٰۃ الدنیا، وفی روایہ اماترضی ان تکون لھم الدنیا ولنا الاخرۃ قالہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لعمر بن الخطاب کما عندالبخاری و مسلمبچہ کی موت پر رنج ہونا اور آنسو آجانا خلاف صبر نہیں ہے (۲۷۱) وَعَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ اَرْسَلَتِ ابْنَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْہِ اِنَّ ابْنَالِّیْ قُبِضَ فَاْتِنَا فَارْسَلَ یُقْرِئُ السَّلَاَمُ وَیَقُوْلُ اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاجَلٍ مُّسمَّی فَلْتَصْبِرُ وَلْتَحْتَسِبْ فَارْسِلَتْ اِلَیْہِ تُقْسِمُ عَلَیْہِ لَیَا تِیَنَّھَا فَقَامَ وَمَعَہٗ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ وَمُعَاذً بْنُ جَبَلٍ وَاُبَیِّ بْنُ کَعْبٍ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالً فَرُفِعَ اِلٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصِّبِیُّ وَنَفْسُہٗ تَتَقَعْقَعُ فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ فَقَالَ سَعْدٌ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَاھٰذَا فَقَالَ ھٰذَا رَحْمَۃٌ جَعَلَھَا اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ فَاِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحْمَائُ۔ (رواہ البخاری و مسلم) ’’حضرت اسامہ بن زیدؓ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (حضرت زینبؓ) نے آپ کی خدمت میں خبر بھیجی کہ میرا بیٹا مرنے کے قریب ہے، آپ تشریف لایئے۔ آپ نے جواب میں سلام کہلوایا اور یہ پیغام بھجوایا کہ بے شک اللہ جو کچھ لے وہ اسی کا ہے اور جو کچھ دے وہ بھی اسی کا ہے، اور ہر چیز کے لیے