تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو سال بھر کے لیے ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں داخل ہوجاتی تھی اور بدترین کپڑے پہن لیتی تھی اور سال گزرنے تک نہ خوشبو لگاتی تھی نہ اور کوئی چیز (صفائی ستھرائی کی) اپنے بدن سے چھواتی تھی، جب سال ختم ہوجاتا تو کوئی چار پایہ گدھا، بکری یا پرندہ اس کے پاس لایا جاتا تھا جس سے وہ اپنی شرم کی جگہ کو رگڑتی تھی (یہ کام ٹوٹکے کے طور پر کرتی تھی اور اس کو دفع مصیبت کا ذریعہ سمجھتی تھیں) چونکہ سال بھر تک بدحالی میں رہ کر اس کے بدن میں زہریلے اثرات پیدا ہوجاتے تھے اس لیے جس جانور سے اپنے جسم کا مخصوص حصہ رگڑتی تھی اکثر مرجاتا تھا اس کے بعد (کوٹھڑی سے) نکلتی اور اس کو اونٹ وغیرہ کی مینگنیاں دی جاتی تھیں وہ ان مینگنیوں کو آگے پیچھے پھینکتی تھی، اس سے لوگوں کو معلوم ہوجاتا تھا کہ اس کی عدت گزر گئی ہے اور اس سے یہ فال لینا بھی مقصود تھا کہ مصیبت پھینک دی جیسا کہ یہ مینگنیاں پھینکی جارہی ہیں۔ اس کے بعد اپنی مرضی کے مطابق خوشبو وغیرہ استعمال کرتی تھی۔ (سنن ابودائود باب احداد المتوفی عنہا زوجھا) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کی یہ پابندی یاد دلائی اور فرمایاکہ اسلام نے صرف چار ماہ دس دن تک عدت اور سوگ رکھا ہے، جاہلیت کی کیسی کیسی مصیبتوں سے تمہاری جان چھڑائی ہے۔ پھر بھی تم اسلام کے قانون کی پاسداری سے بچنے کا راستہ نکالنا چاہتی ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنکھ میں تکلیف ہونے کے باوجود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت والی کو سوگ میں سرمہ لگانے کی اجازت نہ دی۔ حدیث کی شرح لکھنے والے عالموں نے بتایا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کا علاج سرمہ کے بغیر ہوسکتا تھا اور سرمہ بہ طور زینت لگانا چاہتی تھی اس لیے منع فرمایا کیوں کہ حضرت ام سلمہؓ کا فتویٰ ہے (جو سوگ والی احادیث کی راوی ہیں) کہ سوگ والی عورت علاج کی مجبوری سے رات کو سرمہ لگاسکتی ہے۔عورت بیوہ ہوجائے تو دوسرا نکاح کرلے اس کو عیب سمجھنا جہالت ہے : ہندوئوں میں یہ عیب سمجھا جاتا تھاکہ شوہر کی موت کے بعد عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے، ہر وقت کا جلاپا اور ساس نندوں کے طعنے اسے باعزت زندگی گزارنے نہ دیتے تھے، مذہبی قانون اور قومی رواج کے مطابق بے شوہر پر پوری زندگی گزارنا لازم تھا۔ اگرچہ تیرہ سال کی لڑکی بیوہ ہوجائے اور چونکہ شوہر کی ارتھی کے ساتھ جلنا مذہبی مسئلہ تھا اور سب نفرت و حقارت کا برتائو کرتے تھے۔ اس لیے لامحالہ وہ شوہر کی ارتھی میں کود پڑتی تھی اور زندہ جل جانے کو نفرت کی زندگی پر ترجیح دیتی تھی۔ اس کے بالکل برعکس اسلام نے نہ صرف اجازت دی بلکہ ترغیب دی اور مستحب و مستحسن بلکہ بعض حالات میں واجب قرار دیا کہ عدت گزارنے کے بعد عورت دوسرے مرد سے نکاح کرلے۔ وہ مرجائے