تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھا جاتا، جس کی وجہ سے سخت گناہگار ہوتے ہیں، چونکہ یہ بات حقوق العباد سے ہے، اس لیے جب تک بندہ سے معافی نہ مانگی جائے توبہ سے بھی معاف نہ ہوگا۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت صفیہؓ کے قد کی کوتاہی کو خاص انداز میں ذکر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمہ ایسا خراب ہے کہ اگر اس کو جسم کی صورت دے کر سمندر میں گھول دیا جائے تو سمندر کو بھی گدلا کر رکھ دے اور اس کے موجودہ رنگ و بو، اور مزہ کو بدل ڈالے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمارے لیے کس قدر باعث عبرت ہے، ہر شخص غور کرے، کتنے انسانوں کے اعضاء جسم میں اب تک کیڑے ڈالے ہیں اور کتنے لوگوں کی چال ڈھال کو عیب دار بتایا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو لنگڑے کو لنگڑا کہا ہے، اور بہرے کو بہرہ بتایا ہے اور اندھے کو اندھا کہہ کر بلایا ہے اور یہ بات حقیقت اور واقعہ کے خلاف نہیں ہے۔ جھوٹا ہوتا تو قابل گرفت ہوتا، مگر یہ حیلہ شرعاً بے معنی ہے، پہلے حدیث نمبر ۲۰۲ کے ذیل میں گزر چکا ہے کہ گناہ گار کا مدار ناگواری پر ہے، بات کے جھوٹا سچا ہونے پر نہیں ہے، دیکھو! حضرت عائشہؓ نے جو قد چھوٹا بتایا ہے غلط بات نہیں تھی، پھربھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تنبیہ فرمائی۔بندوں کی تعریف کرنے کے احکام (۲۰۴) وَعَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ اَثْنٰی رَجُلٌ عَلٰی رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ وَیْلَکَ وَقَطَعْتَ عُنُقَ اَخِیْکَ ثَلاََثـًا مَّنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّادِحَا لَّا مَحَالَۃَ فَلْیَقُلْ اَحْسِبُ فَلاََنـًا وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ اِنْ کَانَ یَرٰی اَنَّہٗ کَذٰلِکَ وَلاََ یُزَکِّیْ عَلَی اللّٰہِ اَحَدًا۔ (رواہ البخاری و مسلم) ’’حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے دوسرے کی تعریف کردی اس پر آپ نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے تین بار ارشاد فرمایا، تیرے لیے ہلاکت ہے، تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی (پھر فرمایا) کہ جس کو کسی کی تعریف کرنی ہو تو یوں کہے میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں اور اللہ اس کا حساب لینے والا ہے اور یہ بھی اس وقت ہے۔ جب کہ اس کو واقعتاً ایسا سمجھتا ہو۔ (پھرفرمایا) اور اللہ کے ذمہ رکھ کر کسی کا تزکیہ نہ کرے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۴۱۲، از بخاری و مسلم) تشریح: اگر کسی کی تعریف میں کچھ کلمات کہے تو اس کے سامنے نہ کہے، کیوں کہ اندیشہ ہے کہ اس کے دل میں خود پسندی اور برائی آجائے، جب ایک شخص نے دوسرے شخص کی تعریف کی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی، یعنی اس کے سامنے