تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صبر آجاتا ہے)‘‘ (مشکوٰۃ ص ۱۵۰ از بخاری و مسلم)تشریح : اس حدیث میں ایک خاص نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ یہ کہ قرآن و حدیث میں جو صبر کرنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے اس سے وہ صبر مراد ہے جو مصیبت اور تکلیف کے وقت ہو، نیا نیا حادثہ ہے، ابھی ابھی کسی عزیز کی موت ہوئی ہے یا رقم کھو گئی ہے، دل رنجیدہ ہے، اس وقت ہم نے صبر کرلیا تو اس صبر کی قیمت ہے اور بہت بڑی فضیلت ہے، بلکہ حقیقت میں صبر ہی وہ ہے جو دل دکھا ہوا ہونے کے وقت ہو، کیوں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے مصیبت کا احساس طبعی طور پر کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ دن کے بعد بالکل احساس نہیں رہتا، اور انسان اسی طرح ہشاس بشاش رہنے لگتا ہے جیسا کہ مصیبت سے پہلے تھا، وقت گزرنے سے مصیبت بھول بھلیاں ہوگئی اور اس کا نام صبر رکھ دیا، یہ غلط ہے، نہ یہ صبر ہے، نہ اس کی کوئی فضیلت ہے، اس میں مومن و کافر سب برابر ہیں، جس صبر پر مومنین سے وعدہ اجر ہے وہ وہی صبر ہے جو اس وقت ہو جب کہ رنج تازہ تازہ ہو اور دل بے چین ہو، طبیعت بے قرار ہو، دل میں برے برے وسوسے آرہے ہوں، زبان اللہ پاک پر اعتراض کرنے کے لیے کھلنا چاہتی ہو، نفس خلاف شرع کاموں پر ابھارتا ہو، ایسی حالت میں صبر کرنا باعث اجر ہے، جب اس عورت نے معذرت کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو پہچانی نہ تھی، غلبہ رنج میں آپ کو بے تکا جواب دے دیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ صبر اصلی وہی ہے جو تازہ مصیبت کے وقت ہو، جب تم کو صبر کی تلقین کی تھی اسی وقت صبر کرنے اور یہ سمجھنے کا موقع تھا کہ یہ کون ہیں اور یہ کیا نصیحت کی جارہی ہے، اب جب یہ مصیبت ہلکی ہوگئی تو معذرت کررہی ہو حالاں کہ صبر و تقویٰ (جس کی نصیحت فرمائی تھی) وہ چیزیں ہیں جن کی طرف کوئی بھی توجہ دلائے بات مان لینی چاہیے۔گھرمیں موت ہوجانے اور میت کے غسل اور طریقہ کفن کا بیان (۲۶۵) وَعَنْ اُمِّ عَطِیَّۃَ الْاَنْصَارِیَّۃِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھَا قَالَتْ دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ تَوُفِّیَتْ اِبْنَتْہٗ فَقَالَ اغْسِلْنَھَا ثَلاََثـًا اَوْخَمْسًا اَوْاَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ اِنْ رَأَیْتُنَّ ذٰلِکَ بِمَائِ وَّسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِی الْاٰخِرَۃِ کَافُوْرًا اَوْشَیْئًا مِّنْ کَافُوْرٍ فَاِذَا فَرَغْتُنَّ فَاٰذِنَّنِیْ فَلَمَّا فَرَغْنَا اذَّانَّاہُ فَاَعْطَانَا حَقْوَہٗ وَقَالَ اَشْعِرْنَھَا اِیَّاہُ۔ (رواہ البخاری) ’’حضرت ام عطیہ انصاریہؓ نے بیان فرمایا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کی وفات ہوگئی تو (ہم ان کو غسل دینے لگے)اس موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا مناسب جانو تو اس سے زیادہ مرتبہ بیری کے پتوں اور پانی سے ان کو غسل دو، اور آخری مرتبہ میں کافور استعمال کرنا، پھر جب غسل دے چکو تو مجھے اطلاع دے دینا، چناں چہ جب ہم فارغ ہوگئے تو آپ کو اطلاع دے دی، آپ نے اپنا تہبند عنایت