تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے یہ و ہ آداب ہیں جو بندے کو اللہ کے اور اپنے درمیان صحیح تعلق رکھنے کے لیے ضروری ہیں، فرائض اور واجبات، سنن اور مستحبات وہ امور ہیں جن کے انجام دینے سے حقوق اللہ کی ادائیگی ہوتی ہے اور مخلوق کے ساتھ جو انسان کے تعلقات ہوتے ہیں ان میں ان احکام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے جو مخلوق کی راحت رسانی سے متعلق ہیں۔ ان میں بھی واجبات اور مستحبات ہیں اور ان کی تفصیل و تشریح بھی شریعت محمدیہ میں وارد ہوئی ہے۔ یہ وہ آداب ہیں جن کا برتنا مخلوق کے لیے باعث راحت و رحمت ہے۔ خلاصہ یہ کہ لفظ ادب کی جامعیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو شامل ہے، یہ جو حضور اقدس ﷺ نے فرمایاکہ اچھے ادب سے بڑھ کر کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی بخشش نہیں دی، اس میں پورے دین کی تعلیم آجاتی ہے کیوں کہ دین اسلام اچھے ادب کی مکمل تشریح ہے۔ بہت سے لوگ لفظ ادب کے معروف معنی لے کر اس کا رواجی مطلب لے لیتے ہیں اور انھوں نے اٹھنے بیٹھنے کے طریقوں تک ہی ادب کا انحصار سمجھ رکھا ہے۔بہت سے لوگ سخی ہیں مگر اولاد سے غافل ہیں : حدیث میں جو فرمایا کہ انسان اپنے بچہ کو ادب سکھائے تو یہ اس لیے بہتر ہے کہ ایک صاع (ایک صاع ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے) غلہ وغیرہ صدقہ کرے، اس میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ کہ صدقہ و خیرات اگرچہ فی نفسہ بہت بڑی عبادت ہے (اگر اللہ کی رضا کے لیے ہو) لیکن اس کا مرتبہ اپنی اولاد کی اصلاح پر توجہ دینے سے زیادہ نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کو اللہ جل جلالہ نے مال دیا ہے، اس میں صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اولاد کی طرف سے پوری غفلت برتتے ہیں، مسکین آرہے ہیں، گھر پر کھارہے ہیں، غریبوں کی روٹی بندھی ہوئی ہے، مدرسہ اور مسجدوں میں چندہ جارہا ہے، لیکن اولاد بے ادب، بداخلاق، بے دین، بلکہ بددین بنتی چلی جارہی ہے۔ صدقہ خیرات کرنے پر خوش ہیں، اور خوش ہونا بھی چاہیے، لیکن اس سے بڑھ کر عمل جو ہے جس کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ اپنی اولاد کو ادب سکھانا ہے۔ یعنی اللہ کے راستہ پر ڈالنا ہے، اس کے لیے فکر مند ہونا لازمی ہے، اس غفلت سے نسلیں کی نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔اولاد کو ادب سکھانا سب سے بڑا عطیہ ہے : حدیث میں اچھے ادب کو اولاد کے حق میں سب سے بڑی بخشش قرار دیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ادب کی وجہ سے انسان میں انسانیت جلوہ گر ہوتی ہے۔ اللہ کے حقوق کو پہچانتا ہے اور بندوں کے حقوق بھی سمجھتا ہے اور اس کی وجہ سے حقیقی انسان بنتا ہے۔ اگر اولاد کو مال دے دیا، بنگلہ بناکر ہبہ کردیا۔ دھن دولت سے نواز دیا اور زندگی گزارنے کے وہ طریقے نہ بتائے جس سے اللہ راضی ہو اور