تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تشریح : صحیح مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ اس موقعہ پر آپ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ تو فحش گو مت بن، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فحش کو اور فحش اختیار کرنے کو پسند نہیں فرماتا۔ یہودی بڑے شریر تھے، ان کی شرارتیں آج تک کام کررہی ہیں، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی جانتے تھے اور واضح نشانیوں سے پہچانتے تھے، لیکن مانتے نہیں تھے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ معظمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ میں جو یہودی رہتے تھے، وہ آپ کے سخت دشمن ہوگئے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتے تھے، بلکہ شہید کرنے او راسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے پروگرام اور تدبیریں کیا کرتے تھے۔ آپ کی مجلس میں بھی آتے تھے، باتیں بھی پوچھتے تھے، لیکن اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے تھے، انہی شرارتوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو بجائے السلام علیکم کے دبی زبان میں السام علیکم کہتے تھے۔ درمیان میں لام قصداً کھاجاتے تھے سلام بمعنی سلامتی ہے اور السام بمعنی موت ہے، یہودی اپنی خباثت اور شرارت سے بظاہر سلام کرتے تھے، لیکن دبی زبان او ردل کے ارادہ سے موت کی بددعا دیتے تھے۔ ایک مرتبہ جو آئے اور ایسی ہی شرارت کی تو حضرت عائشہؓ نے سن لیا، اور فوراً سخت الفاظ میں ان کو جواب دیا، اور انھوں نے جو کچھ کہا تھا اس سے بڑھ کر بددعا دی، یہودیوں نے تو صرف موت کی بددعا تھی، حضرت عائشہؓ نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا اور موت کی بددعا کے ساتھ ا ن پر لعنت بھی بھیجی اور اللہ پاک کا غضب نازل ہونے کی بھی بددعا دی۔ (ایک روایت میں حضرت عائشہؓ کے یہ الفاظ ہیں السام علیکم ولعنکم اللہ وغضب علیکم) (کمافی المشکوٰۃ ۳۹۸)حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کو تنبیہ فرمائی، اور فرمایا کہ اے عائشہ! ٹھہر اور نرمی اختیار کر، سختی اور فحش کلامی سے پرہیز کر، کیوں کہ اللہ تعالیٰ بدکلامی اختیار کرنے کو پسند نہیں فرمایا، حضرت عائشہؓ نے عرض کیا، آپ نے ان کی حرکتوں کی طرف توجہ نہیں فرمائی، آپ نے فرمایا، ہاں مجھے پتہ ہے انھوں نے کیا کہا، میں نے بھی تووعلیکم السلام نہیں کہا بلکہ صرف وعلیکم کہہ کر جوا ب دیا، جو کچھ انھوں نے میرے لیے کہا و ہ میں نے ان پر الٹ دیا، ان کی بددعا میرے حق میں قبول نہ ہوگی، اور میری بددعا ان کو لگ کر رہے گی۔ مطلب یہ ہے کہ جو انہو ں نے کہا وہ ا ن پر الٹ دیا گیا، اور مزید سخت کلامی اور بدکلامی کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ کو نرمی پسند ہے، سختی اور سخت کلامی اور فحش کلامی پسند نہیں کرتا ہے۔ دیکھو اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی مبارک نصیحت فرمائی، یہودی جو دشمن خدا اور دشمن دین تھے، ان کو جواب دینے میں بھی یہ پسند نہ فرمایا کہ سختی کی جائے، اوربدکلامی اختیار کی جائے، جب دشمنوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو آپس میں مسلمانوں کو سخت کلامی اور بدکلامی اختیار کرنے کی کہاں گنجائش ہوسکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ فرمایا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم