تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا کمال یہ ہے کہ اپنے بدن اور اعضائے جسم اور بیوی بچوں اور مہمانوں کے حقوق کی نگہداشت کرتے ہوئے نفل عبادت کی جائے۔ مہمان آیا اسے نوکر چاکر کے ذریعے کھانا کھلوادیا۔ سونے لگے تو وہ اکیلا سوگیا اور صاحب خانہ نماز میں لگ گئے۔ وہ بے چارہ منتظر ہی رہا کہ دو باتیں کب کروں؟ یہ کوئی صحیح عبادت نہیں، البتہ نفس کی شرارت کو بھی موقع نہیں دینا چاہیے، یعنی موقع ہوتے ہوئے نفس بہانے نہ نکال لے کہ آج مہمان ہیں کیسے نماز پڑھوں؟ اور دو رکعت پڑھ لوں گی تو بوڑھی ہوجاؤں گی اور اگر ایک نفلی روزہ رکھ لیا تو کمزوری کے پہاڑ ہی ٹوٹ پڑیں گے۔ خلاصہ یہ کہ شریعت کی حدود میں نفس وشیطان کے فریب سے بچتے ہوئے نفل نمازیں پڑھو اور نفل روزے رکھو، تلاوت بھی کرو اور ذکر بھی کرو اور کسی مخلوق کا حق واجب بھی ضائع نہ ہونے دو۔فرض روزوں کی ادا اور قضا میں شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں : تنبیہ: فرض نماز اور روزے کی ادائیگی میں شوہر کی اجازت کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ وہ اجازت دے نہ دے تب بھی ان کی ادائیگی فرض ہے اگر وہ اس سے روکے گا تو سخت گناہ گار ہوگا، اسی طرح رمضان کے جو روزے ماہواری کی مجبوری کی وجہ سے رہ جائیں تو ان کی قضا رکھنا بھی فرض ہے۔ اگر شوہر روکے تب بھی قضا رکھ لے اگر وہ روکے گا تو سخت گناہ گار ہوگا۔پیر اور جمعرات اور چاند کی ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ کے روزے : رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی روزے رکھنا چاہیے۔ روزہ بہت بڑی عبادت ہے اور اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔ عید کے مہینہ کے چھ روزوں کا ذکر آئندہ حدیث میں تشریح میں آرہا ہے، پیر اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھنے کی بھی فضیلت آئی ہے۔ حضور اقدسﷺ نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کو بارگاہ خداوندی میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں، لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزہ سے ہوں۔ (ترمذی شریف) چاند کی تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کی بھی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ آں حضرتﷺ نے ان دنوں کے روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے۔بقر عید کی نویں تاریخ کا روزہ : حضور اقدسﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ بقر عید کی نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ فرما دیں گے۔