تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوئی، وقت بھی کم لگا، اور ثواب میں بڑی بڑی عمر والی امتوں سے بڑھ گئے، اللہ تعالیٰ کا فضل و انعام ہے کہ اس امت کو سب سے زیادہ نوازا، اب دیکھو بندوں کی کیسی نالائقی ہوگی کہ اللہ کی بہت زیادہ نوازش اور داد و دہش ہو اور وہ غفلت میں پڑے سویا کریں، رمضان کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہونے دو، خصوصاً آخری عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرو اور اس میں بھی شب قدر میں جاگنے کی بہت زیادہ فکر کرو، بچوں کو بھی ترغیب دو۔دعا : حضرت عائشہ ؓ نے جب پوچھا کہ یارسول اللہﷺ شب قدر میں کیا کروں؟ تو آپ نے یہ دعا تعلیم فرمادی: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاَعْفُ عَنِّیْ۔ اے اللہ اس میں شک نہیں کہ آپ معاف کرنے والے ہیں، معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں لہٰذا مجھے معاف فرمادیجیے۔ دیکھئے کیسی دعا ارشاد فرمائی، نہ زر مانگنے کو بتایا نہ زمین، دھن نہ دولت کیا مانگا جائے؟ معافی۔ بات اصل یہ ہے کہ آخرت کا معاملہ سب سے زیادہ کٹھن ہے۔ وہاں اللہ کے معاف فرمانے سے کام چلے گا، اگر معافی نہ ہوئی اور خدانخواستہ عذاب میں گرفتار ہوئے تو دنیا کی ہر نعمت اور لذت اور دولت و ثروت بے کار ہوگی، اصل شے معافی اور مغفرت ہی ہے، ایک حدیث میں ارشاد ہے: مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ (بخاری و مسلم) جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا رہا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں کھڑا رہے اور اسی حکم میں یہ بھی ہے کہ تلاوت اور ذکر میں مشغول ہو اور ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ریا وغیرہ کسی طرح کی خراب نیت سے عبادت میں مشغول نہ ہو، بلکہ اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت سے عبادت میں لگا رہے۔ بعض علما نے فرمایا کہ اِحْتِسَابًا کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کا یقین کرکے بشاشت قلب سے کھڑا ہو، بوجھ سمجھ کر بددلی کے ساتھ عبادت میں نہ لگے کہ ثواب کا یقین اور اعتقاد جس قدر زیادہ ہوگا اتنا ہی عبادت میں مشقت کابرداشت کرنا سہل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص قرب الٰہی میں جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے، عبادت میں اس کا انہماک زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوجانا ضروری ہے کہ حدیث بالا اور اس جیسی احادیثوں میں گناہوں کی معافی کا ذکر ہے، علما کا اجماع ہے کہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ پس جہاں احادیث میں گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر آتا ہے وہاں صغیرہ گناہ مراد ہوتے ہیں اور صغیرہ گناہ ہی انسان سے بہت زیادہ سرزد ہوتے ہیں۔ عبادت