تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علماء کرام کو قرآن و حدیث کی تشریحات اور احکام شرعیہ کی پوری پوری تفصیلات معلوم ہیں، نیز دین کی وسعتیں اور رخصتیں بھی جانتے ہیں اور شرعی پابندیوں اور عزیمتوں سے بھی واقف ہیں، اس لیے تحریراً و تقریراً احکام شرعیہ کی حدود و قیود اور ضوابط و شرائط سے امت کو آگاہ فرماتے رہتے ہیں، اسکولوں اور کالجوں کے پڑھے ہوئے نیم ملا چونکہ شریعت کا پورا علم نہیں رکھتے، اس لیے حقائق شرعیہ اور بالکل متفق علیہ مسائل دینیہ کو مولوی کی ایجاد کہہ کر ٹال دیتے ہیں، اور یہ عجیب تماشا ہے کہ جس مسئلہ پر عمل نہ کرنا ہواس سے بچنے کے لیے ایجاد مولوی کا بہانہ پیش کردیتے ہیں، حالاں کہ نماز، روزہ وغیرہ کے جن مسائل پر عمل کرتے ہیں وہ بھی تو مولویوں نے ہی بتائے ہیں لیکن چونکہ ان سے گریز کرنے کی نیت نہیں ہے اس لیے ان کو صحیح مانتے ہیں، میدان قیامت میں جب پیشی ہوگی تو کیا ایسی کج روی اور حیلہ سازی جان بچاسکے گی۔عہد رسالت میں پردہ کا خاص اہتمام تھا : (۲۰۸) وَعَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ اَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ خَیْبَرَ وَالْمَدِیْنَۃِ ثَلٰـثًا یُبْنٰی عَلَیْہِ بِصَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَّیٍ فَدَعَوْتُ الْمُسْلِمِیْنَ اِلٰی وَلِیْمَتِہٖ فَمَا کَانَ فِیْھَا مِنْ خُبْزٍ وَلاََلَحْمٍ اَمَرَ بِالْاَقْطَاعِ فَاُلْقِیَ فِیْھَا مِنَ التَّمْرِ وَالْاَقِطِ وَالسَّمْنِ فَکَانَتْ وَلِیْمَتَہٗ فَقَالَ الْمُسْلِمُوْنَ اِحْدٰی اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَوْ مِمَّا مَلَکَتْ یَمِیْنُہٗ فَقَالُوْا اِنْ حَجَبَھَا فَھِیَ مِنْ اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِنْ لَّمْ یَحْجُبْھَا فَھِیَ مِمَّا مَلَکَتْ یَمِیْنُہٗ فَلَمَّا ارْتَحَلَ وَطَّأَلَھَا خَلْفَہٗ وَمَدَّالْحِجَابَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ النَّاسِ۔ (رواہ البخاری) ’’حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین روز خیبر اور مدینہ کے درمیان قیام فرمایا، تینوں روز حضرت صفیہؓ نے آپ کے ساتھ شب باشی کی (اور وہیں جنگل میں ولیمہ ہوا) ولیمہ میں کوئی گوشت روٹی نہیں تھی (بلکہ متفرق قسم کی دوسری چیزیں تھیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کے دستر خوان بچھانے کا حکم فرمایا، جس پر کھجوریں اور پنیر اور گھی لاکر رکھ دیا گیا، میں لوگوں کو بلا لایا اور لوگوں نے ولیمہ کی دعوت کھائی۔ (پورے لشکر میں سے جن کو نکاح کا علم نہ ہوا تھا وہ) لوگ اس تردد میں رہے کہ صفیہؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمالیا ہے یا باندی بنالیا ہے۔ پھر ان لوگوں نے خود ہی اس کا فیصلہ کرلیا کہ آپ نے ان کو پردہ میں رکھا تو ہم سمجھیں گے کہ آپ کی بیوی ہیں اور امہات المومنین میں سے ہیں، ورنہ یہ سمجھیں گے کہ آپ نے ان کو لونڈی بنالیا ہے۔ چناں چہ آپ نے جب کوچ فرمایا تو اپنی سواری پر ان کے لیے پیچھے جگہ بنائی اور ان کو سوار کرکے ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان دیا اس سے سب سمجھ گئے ام المومنین ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری ص ۲۷۷۵ باب النبا فی السفر)