تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے کے مال کواپنا بناکر فخر کیا جائے۔ بعض لوگ حاجی نہیں ہوتے مگر نیچے کرتے پہن کر حاجی ہونا بیان کرتے ہیں، اسی طرح بہت سے لوگ مرشد و صوفی نہیں ہوتے، لیکن اپنے کو لوگوں کی نظروں میں بڑا ظاہر کرنے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے ان کا صوفی اور پیر ہونا ظاہر ہوجائے، بہت سے لوگ ایسی ہی نیت سے مشائخ کا لباس پہن لیتے ہیں، ایسے لوگ بھی اس حدیث کے مضمون میں داخل ہیں، یعنی بحکم حدیث سر سے پائوں تک جھوٹے ہیں، بہت سے لو گ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما یا کسی مشہور بزرگ کی نسل سے نہیں ہوتے، لیکن اپنے نام کے ساتھ صدیقی، فاروقی لکھتے ہیں، یا چشتی، قادری (یہاں پہنچ کر حضرت اقدس مولانا تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ یاد آگیا، فرمایا۔ آج کل نسبتیں لگانے کا فیشن ہوگیا ہے۔ ہیں کچھ نہیں اور بنتے ہیں راشدی، خلیلی، امدادی، صابری وغیرہ اور بعض توکوڑی بھی نہیں ہیں مگر اشرفی بنتے ہیں (یعنی اشرف علی کی طرف اپنے کو منسوب کرتے ہیں کیا ذومعنیین جملہ ارشاد فرمایا) ہونے کے مدعی ہوتے ہیں، حالاں کہ ان کو چشتیت، قادریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا؟ یہ لوگ بھی حدیث بالا کے ذیل میں آتے ہیں۔ الغرض جس کا ظاہر باطن کے خلاف ہے اس کا ظاہر سراپا کذب اور جھوٹ ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا۔سختی اور فحش کلامی پر تنبیہ : (۱۹۶) وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہَا قَالَتِ اسْتَاْذَنَ رَھْطٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْ اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ فَقُلْتُ بَلْ عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ فَقَالَ یَا عَائِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ قُلْتُ اَوْلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ قَدْ قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ وَفِیْ رِوَایَہٍ عَلَیْکُمْ وَلَمْ یَذْکُرُلْوَاوَ ۔(رواہ البخاری) ’’حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا، ایک مرتبہ چند یہودیوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی اجازت چاہی، اور اس موقع پر (دبی زبان میں)انھوں نے کہا اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ (یعنی السلام کے بجائے اسام کہہ دیا، سلام سلامتی کو سام موت کو کہتے ہیں، انھوں نے بددعا دینے کی نیت سے یہ سمجھ کر ایسا کہا کہ سننے والوں کو سمجھ میں نہ آئے گا۔ حضرت عائشہؓ نے سن لیا اور فوراً جواب دیا اور فرمایا بَلْ عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ بلکہ تم پر موت ہو اور لعنت ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! بے شک اللہ رحیم ہے، ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتاہے۔ تم کو اس طرح جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ آپ نے نہیں سنا، انھوں نے کیا کہا؟ آپ نے فرمایا، میں نے اس کو جواب میں وعلیکم کہہ دیا (یعنی ان کوموت کی بددعا دے دی، پس میری بددعا ان کے حق میں قبول ہوگی، اور میرے حق میں ان کی بددعا قبول نہ ہوگی) (مشکوٰۃ المصابیح ص ۳۹۸، از بخاری و مسلم)