تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رہتی ہیں، حالاں کہ اپنے عزیزوں پر خرچ کرنے میں دو ثواب ہوتے ہیں ۔ ایک صدقہ کرنے کا ، دوسرا عزیزوں کی خبر لینے اور خدمت کرنے کا۔ چناں چہ ارشاد نبویﷺ ہے: اَلصَّدَقَۃُ عَلٰی الْمِسْکِیْنِ صَدَقَۃٌ وَھِیَ عَلٰی ذِی الرَّحْمِ ثِنْتَانِ صَدَقَۃٌ وَصِلَۃ۔ مسکین کو صدقہ دینا صرف ایک صدقہ(ہی) ہے اور قرابت دار پر صدقہ کرنے میں دوہرا ثواب ہے۔ کیوں کہ یہ صدقہ بھی ہے اور قرابت داری کے حقوق کی دیکھ بھال بھی۔ یہاں پہنچ کر یہ بات بتا دینا ضروری ہے کہ صدقہ کو صدقہ و خیرات بتا کر دینا ضروری نہیں ہے۔ اگر اپنے کسی عزیز کو صدقہ کے نام سے کچھ دیں گے تو وہ نہ لگے گا اور اس کا دل بھی برا ہوگا، اس لیے ہدیہ کے نام سے دیجیے بلکہ ہدیہ کا لفظ بولنا بھی ضروری نہیں، صرف یہ کہہ دیجیے کہ یہ کچھ پیسے ہیں خرچ کر لینا ، یا کپڑے بنا دیجیے اور کسی طرح سے ان کی جائز ضرورت میں خرچ کر دیجئے، زکوٰۃ کی رقم کا بھی یہ مسئلہ ہے کہ اپنے عزیزوں کو دینے سے دوہرا ثواب ہوتا ہے۔ البتہ اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کو جہاں تک سلسلہ چلے اور ماں باپ اور دادا پڑ دادا، نانا پڑنانا، دادی پڑ دادی ، نانی پڑنانی کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اور شوہر و بیوی بھی ایک دوسرے کو اپنی زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ اور دوسرے عزیزوں مثلاً بہنوں بھائیوں، بھتیجوں، بھتیجیوں، بھانجوں بھانجیوں اور پھوپھی و خالہ و چچا و ساس سسر وغیرہ کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ جسے دی جائے اسے بتا دیا جائے، بلکہ ہدیہ اور قرض بتا کر بھی دے سکتے ہیں ہاں اپنے دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لیں اور دیکھ لیں کہ جس کو دے رہے ہیں کسی اعتبار سے صاحب نصاب نہیں اور سیّد بھی نہیں ہے ، یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ زکوٰۃ جب ادا ہوگی جب مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کا مال دے کر قبضہ دے کر مالک بنا دیا جائے اگر اس کو نہ دیاا ور بالا بالا اس کا قرض ادا کر دیا یا فیس ادا کر دی تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، ہاں مال خرچ کرنے کا ثواب مل جائے گا۔اُمّ المومنین حضرت زینبؓ دست کاری سے پیسہ حاصل کر کے صدقہ کرتی تھیں : ۴۲۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ ؓ اَنَّ بَعْضَ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ ﷺ قُلْنَ لِلنَّبِیِ ﷺ ایُّنَا اَسْرَعُ بِکَ لُحُوْقًا قَالَ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا فَاَخَذُوْا قَصْبَۃً یَذْرَعُوْنَھَا وَکاَنَتْ سَوْدَۃُ اَطْوَلَھُنَّ یَدًا فَعَلِمْنَا بَعْدُ اِنَّمَا کَانَ طُوْلُ یَدِھَا الصَّدَقَۃُ وَکَانَتْ اَسْرَعُنَا لُحُوْقًا ِبہٖ زَیْنَبُ ؓ وَکَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَۃُ۔ (رواہ البخاری) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرمﷺ کی بعض بیویوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ آپ کی وفات کے بعد ہم میں سے کون سی بیوی سب سے پہلے آپ سے جاکر ملے گی(یعنی سب سے پہلے کس کی وفات ہوگی)آپ نے فرمایا تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہیں (وہ سب سے پہلے دار فانی سے رخصت ہوگی، دریافت کرنے والی بیویوں نے اس بات کا ظاہری مطلب سمجھا اور)ایک بانس لے کر سب کے ہاتھ ناپنے لگیں ۔ نتیجتاً حضرت سودہ ؓ کے ہاتھ