تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حضرت عائشہ ؓ سے دس سال بڑی تھیں، انھوں نے مکہ ہی میں قبول اسلام کرلیا تھا ، تاریخ لکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ اٹھارویں مسلمان تھیں، اس زمانہ میں ایک مسلمان کا بڑھ جانا بہت بڑی بات تھی، اس لیے یوں شمار کیا کرتے تھے کہ فلاں ساتواں مسلمان ہے اور فلاں دسواں مسلمان ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان کی روایت کردہ بہت سی حدیثیں کتابوں میں ملتی ہیں ۔ ان کے شوہر حضرت زبیر بن العوام تھے۔ جن کو آں حضرتﷺ نے اپنا حواری یعنی بہت خاص آدمی بنایا تھا، ان کے صاحب زادوں میں عبداللہ بن زبیر اور عروہ بن زبیر زیادہ مشہور ہیں، حدیث کی کتابوں میں ان کا ذکر بہت آتا ہے، حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے مکہ میں حکومت قائم کرلی تھی جو بادشاہ وقت عبدالملک بن مروان کے خلاف تھی۔ عبدالملک کا مشہور ظالم گورنر حجاج بن یوسف گزرا ہے، اس نے مکہ پر چڑھائی کرکے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو شہید کردیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ حضرت اسماء ؓ زندہ تھیں ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو شہید کرکے حجاج ان کی والدہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تم نے دیکھا تمہارے لڑکے کا کیا حال بنا؟ یعنی شکست کھاکر قتل ہوا۔ حضرت اسماء ؓ نے بغیر کسی خوف و ہراس کے برجستہ جواب دیا کہ رَئَیْتُکَ اَفْسَدْتَّ عَلَیْہِ دُنْیَاہِ وَاَفْسَدَ عَلَیْکَ اخِرَتُکَ یعنی میرے بیٹے کی اور تیری جنگ کا خلاصہ میرے نزدیک یہ ہے کہ تو نے میرے بیٹے کی دنیا خراب کردی یعنی اس کی دنیاوی زندگی ختم ہوگئی اور اس نے تیری آخرت خراب کردی۔ (مشکوٰۃ المصابیح: ۵۵۲) کیوں کہ ایک بادشاہ کی حمایت میں پڑ کر تو نے ایک صحابی کو شہید کردیا جو صحیح خلافت قائم کیے ہوئے تھا، اس زمانے کی مسلمان عورتیں بڑی بہادر اور دلاور ہوتی تھیں ۔ بات یہ ہے کہ ایمان مضبوط ہو تو دل بھی مضبوط ہوتا ہے اور زبان بھی حق کہتے ہوئے لڑکھڑاتی نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ایک بوڑھی عورت نے حجاز اور عراق کے گورنر کو کیسا منہ توڑ جواب دیا۔مال کے بارے میں آں حضرتﷺ کی تین نصیحتیں : حضرت اسماء ؓ کا حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں آنا جانا رہتا تھا اور مسئلہ مسائل دریافت کرتی تھیں ۔ ایک بار آں حضرتﷺ نے ان کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے اور غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کی خبر گیری کی طرف توجہ دلائی اور چار باتیں ارشاد فرمائیں ۔ اوّل: اَنْفِقِیْ (خرچ کرتی رہا کرو۔) دوم: وَلَا تُحْصِیِ (گن گن کر نہ رکھنا) یعنی جمع کرنے کے پھیر میں نہ پڑنا کہ جمع کررہے ہیں او رشمار کرتے جارہے ہیں آج اتنا ہوا اور کل اتنا بڑھا، جمع کرنے کے خیال میں اپنی ضرورتیں بھی روکے ہوئے ہیں، اور دیگر ضرورت مندوں کو بھی نہیں دیتے۔ یہ طریقہ اہل ایمان کا نہیں بلکہ دنیا سے محبت کرنے والے ایسا کرتے ہیں