تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اے اللہ آپ کی اس رحمت کے وسیلہ سے جو ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے سوال کرتا ہوں کہ آپ میرے گناہ معاف فرمائیں۔امام عادل : حدیث شریف میں یہ بھی فرمایا کہ امام عادل کی دعا قبول ہوتی ہے۔ امام پیشوا کو کہتے ہیں اور عادل انصاف کرنے والے کو، جس مسلمان کو اقتدار اعلیٰ مل جائے اور وہ انصاف کے ساتھ شریعت کے مطابق عوام کو اپنے ساتھ لے کر چلے اسے امام عادل کہا جاتا ہے، امام عادل کی بڑی فضیلت ہے اور فضیلت کی وجہ یہی ہے کہ وہ صاحب اقتدار ہوتے ہوئے ظلم نہیں کرتا اور گناہوں سے بچتا ہے اور اللہ پاک سے ڈرتا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ کے (عرش کے) سایہ کے علاوہ کسی کا سایہ نہ ہوگا (اور لوگ دھوپ اور گرمی کی وجہ سے سخت پریشانی میں ہوں گے) اس وقت حق تعالیٰ شانہٗ سات آدمیوں کو اپنے سایہ میں جگہ دیں گے، ان آدمیوں میں ایک امام عادل بھی ہے، امام عادل کی یہ بھی فضیلت ہے کہ وہ جو دعا کرے گا، بارگاہ خداوندی میں قبول ہوگی۔ معلوم ہوا کہ صاحب اقتدار ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ صاحب اقتدار ہوتے ہوئے اپنے حسن و اخلاق اور نیک اعمال کی وجہ سے اللہ کا محبوب اور مقبول بن سکتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی خرابی برے اعمال سے اور مخلوق پر ظلم و ستم کرنے سے سامنے آتی ہے اور اقتدار ہوتے ہوئے نیک بننا بہت مشکل ہوجاتاہے اور جب اقتدار ہی مقصود رہ جاتا ہے تو پھر حلال حرام کی تمیز نہیں رہتی، مخلوق پر طرح طرح کے ظلم کیے جاتے ہیں تاکہ اقتدار کو ٹھیس نہ لگے اور اس طرح سے صاحب اقتدار اللہ کے نزدیک اور بندوں کے نزدیک بدترین مبغوض انسان بن جاتا ہے۔مظلوم : جس شخص پر کسی طرح کا کوئی ظلم کیا جائے اسے مظلوم کہتے ہیں، مظلوم بھی ان لوگوں میں سے ہے جس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مظلوم کی بددعا سے بچو (اس لیے کہ وہ ضرور قبول ہوگی) کیوں کہ مظلوم حق تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ شانہٗ کسی حق والے سے اس کا حق نہیں روکتے۔ (بیہقی فی شعب الایمان) جب حضور اقدس ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو چند نصیحتیں فرمائیں۔ ان میں سے ایک نصیحت یہ تھی۔ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہٗ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ۔ (بخاری و مسلم) یعنی مظلوم کی دعا سے بچنا کیوں کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔ پردہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ضرور قبول ہوگی۔ اس کو قبولیت کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ اسی مضمون کو حدیث ۱۱۳ میں اس طرح بیان فرمایا کہ مظلوم کی بددعا کو اللہ جل جلالہ بادلوں کے اوپر اٹھالیتے ہیں اور اس کے لیے آسمان کے