تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مستحق ہے، پھر فرمایا کہ باپ کے رشتہ داروں میں جو سب سے زیادہ قریب تر ہو، اس کے ساتھ حسن سلوک کرو، او راس قریب تر رشتہ والے کے بعد جو رشتہ میں سب سے زیادہ قریب تر ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ۴۱۸، از بخاری و مسلم)تشریح : اس حدیث پاک میں حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ماں کو بتایا ہے، کیوں کہ وہ حمل اور وضع حمل اور پرورش کرنے اور بچہ کی خدمت میں لگے رہنے کی وجہ سے سب سے زیادہ مشقت برداشت کرتی ہے اور ضعیف ہونے کی وجہ سے بھی حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے، کیوں کہ اپنی حاجتوں کے لیے وہ کسب معاش نہیں کرسکتی، باپ تو باہر نکل کر کچھ نہ کچھ کر بھی سکتا ہے، لہٰذا حسن سلوک میں ماں کا حق باپ سے مقدم رکھا گیا، ماں کے بعد باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا درجہ بتایا اور باپ کے بعد باقی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور اس میں رشتہ داری کی حیثیت کو معیار بنایا کہ جس کی رشتہ داری جس قدر مزید تر ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کا اسی قدر اہتمام کیا جائے۔ ’’فضائل صدقات‘‘ میں ہے کہ اس حدیث شریف سے بعض علماء نے استنباط کیا ہے کہ حسن سلوک اور احسان میں ماں کا حق تین حصے ہے، اور باپ کا ایک حصہ ہے، اس لیے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ماں کو بتا کر چوتھی مرتبہ باپ کو بتایا، اس کی وجہ علماء یہ بتاتے ہیں کہ اولاد کے لیے ماں تین مشقیں برداشت کرتی ہے، حمل کی، جننے کی، دودھ پلانے کی۔ اسی وجہ سے فقہانے تصریح کی ہے کہ احسان اور سلوک میں ماں کا حق باپ پر مقدم ہے، اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ وہ اپنی ناداری کی وجہ سے دونوں کے ساتھ سلوک نہیں کرسکتا تو ماں کے ساتھ سلوک کرنا مقدم ہے، البتہ اعزازمیں ادب و تعظیم میں باپ کا حق ماں پر مقدم ہے۔ماں باپ کو ستانے کا گناہ اور دنیا میں وبال : (۱۶۹) وَعَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ الذُّنُوْبِ یَغْفِرُاللّٰہُ مِنْھَا مَاشَائَ اِلَّا عُقُوْقَ الْوَالِدَیْنِ فَاِنَّہٗ یُعَجِّلُ لِصَاحِبِہٖ فِی الْحَیٰوۃِ قَبْلَ الْمَمَاتِ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان) ’’حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ماں باپ کے ستانے کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ شانہٗ جس کو چاہتے ہیں معاف فرمادیتے ہیں اور ماں باپ کو ستانے کا گناہ ایسا ہے کہ اس گنا ہ کے کرنے والے کو اللہ جل شانہٗ موت سے پہلے دنیا والی ہی زندگی میں سزا دے دیتے ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ ص ۴۲۱ عن البیہقی فی الشعب)تشریح : ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ظلم اور قطع رحمی کے علاوہ کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کا ارتکاب کرنے والا دنیا میں سزا پانے کا زیادہ مستحق ہو، ان دونوں