تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرف بالکل دھیان نہیں دیتے، جس کی سزا آخرت میں بہت بڑی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: {کَلَّاط اِنَّہَا لَظٰیo نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰیo تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰیo وَجَمَعَ فَاَوْعٰیo}1 (1 المعارج: ۱۵-۱۸) وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال اتار دے گی، وہ اس شخص کو بلاوے گی جس نے پیٹھ پھیری ہوگی اور بے رخی کی ہوگی اور جمع کیا ہوگا پھراس کو اٹھا اٹھا کر رکھا ہوگا۔ (ترجمہ بیان القرآن) چہارم: فرمایا: اِرْضَخِیْ مَا اسْتَطَعْتِ تھوڑا بہت جو ہوسکے راہ حق میں خرچ کرتی رہو۔ لفظ ’’جو کچھ ہوسکے‘‘بہت عام ہے اور ہر امیر غریب اس پر عمل کرسکتا ہے۔ درحقیقت فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا تعلق آخرت کی محبت سے ہے، مال داری سے نہیں ہے، غریب بھی خرچ کرسکتا ہے مگر اپنی مقدرت کے مطابق خرچ کرے گا اور امیر بھی خرچ کرسکتا ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق پیسہ اٹھائے گا۔ دنیاوی ضرورتوں میں بھی تو سب ہی خرچ کرتے ہیں، آخرت کا فکر ہو تو اس میں بھی امیر غریب پیسہ لگائے۔ حدیث کی شرح لکھنے والے عالموں نے بتایا ہے کہ آں حضرتﷺ نے حضرت اسماء ؓ سے یہ لفظ کہ ’’تھوڑا بہت جو کچھ ہوسکے خرچ کرو‘‘ اس لیے فرمایا کہ اس زمانہ میں غربت کی حالت میں تھیں اور یہ بھی بات ہے کہ شوہر کے مال سے عام طور پر تھوڑا بہت ہی خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔عید کے موقعہ پر صحابی عورتوں کا اپنے اپنے زیوروں سے صدقہ کرنے کا واقعہ : ۳۷۔ وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَابِسٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ؓ قِیْلَ لَہٗ اَشَھَدْتَّ الْعِیْدَ مَعَ النَّبِیٌ ﷺ قَالَ نَعَمْ فَصَلّٰی ثُمَّ خَطَبَ ثُمَّ اَتَی النِّسَائَ وَمَعَہٗ بِلَالٌ فَوَعَظَھُنَّ وَذَکَّرَھُنَّ بِالصَّدَقَۃِ فَرَاَیْتُھُنَّ یُھْوِیْنَ بِاَیْدِیْھِنَّ یَقْذِفْنَہٗ فِیْ ثَوْبِ بِلَالٍ ثُمَّ انْطَلَقَ ھُوَ وَبِلَالٌ اِلٰی بَیْتِہٖ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَبَسَطَ بِلَالٌ تُوْبَہٗ فَیُلْقِیْنَ الْفَتَخَ وَالْخَوَاتِیْمَ فِیْ ثَوْبِ بِلَالٍ۔ (رواہ البخاری: ۱۳۳) حضرت عبدالرحمن بن عابس کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے کسی نے پوچھا کیا آپ حضور اکرمﷺ کے ساتھ عید کے موقعہ پر حاضر رہے ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں میں آپ کے ساتھ عید میں موجود تھا۔ آپ نے عید کی نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا۔ پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے اور ان کو نصیحت فرمائی اور (آخرت کی باتیں) یاد دلائیں اور صدقہ کا حکم فرمایا۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ حضرت بلال ؓ بھی آئے تھے۔ انھوں نے اپنا کپڑا پھیلادیا اور عورتیں ان کے کپڑے میں اپنے اپنے زیور اتار اتار کر پھینکتی رہیں، ان زیوروں میں موٹی موٹی انگوٹھیاں (بھی) تھیں ۔ اس کے بعد آپ حضرت بلال ؓ کو ہمراہ لے کر اپنے دولت کدہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (بخاری شریف ص ۱۳۳) تشریح: حضرت ابن عباس ؓ کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: فَرَأَیْتُھُنَ یُھْوِیْنَ اِلٰی اذَانِھِنَّ وَحُلُوْقِھِنَّ یَدْفَعْنَ اِلٰی بِلَالٍ۔ یعنی میں نے دیکھا کہ آں حضرتﷺ کی ترغیب