تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سال یہ بچہ حفظ کرے گا اس کے یہ سال دنیوی تعلیم کے اعتبار سے ضائع نہیں ہوں گے کیوں کہ حفظ کرلینے والا حفظ سے فارغ ہوکر چند ماہ کی محنت سے چھٹی ساتویں جماعت کاامتحان باآسانی دے سکتا ہے۔ یہ محض دعویٰ نہیں تجربہ کیا گیا۔ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ۔ذکر اللہ کے فضائل اور غفلت پر وعیدیں تسبیح و تہلیل کا حکم اور انگلیوں پر پڑھنے کی فضیلت : ۸۶۔ عَنْ یَسَیْرَۃَ ؓ وَکَانَتْ مِنَ الْمُھَاجِرَاتِ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَلَیْکُنَّ بِالتَّسْبِیْحِ وَالتَّھْلِیْلِ وَالتَّقْدِیْسِ وَاعْقِدْنَ بِالْاَنَامِلِ فَاِنَّھُنَّ مَسْئُوْلَاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ وَلَا تَغْفُلْنَ فَتُنْسَیْنَ الرَّحْمَۃَ۔ (رواہ الترمذی و ابو داود) حضرت یسیرہؓ بیان فرماتی ہیں (جو ان مقدس خواتین میں سے نہیں، جنھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی تھی) کہ سرور عالم ﷺ نے ہم (چند خواتین سے خطاب کرکے) فرمایا کہ تم تسبیح و تہلیل اور تقدیس کی پابندی رکھو اور انگلیوں پر پڑھا کرو کیوں کہ ان سے دریافت کیا جائے گا (اور جواب دینے کے لیے)ان کوبولنے کی قدرت دی جائے گی اور تم (ذکر اللہ سے) غافل نہ ہوجانا ورنہ رحمت سے بھلادی جاؤگی۔ (مشکوٰۃ المصابیح: ص ۲۰۲ بہ حوالہ ترمذی و ابو داود) تشریح: آقائے دو جہاں ﷺ تمام مردوں اور عورتوں کے لیے مبعوث ہوئے اور آپ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے مصلح اور ہادی ہیں۔ گو عموماً احکام شرعیہ قرآن و حدیث میں عمومی خطاب سے مذکور ہیں۔ جس میں مذکر کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں اور بجز احکام مخصوصہ کے سب احکام مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہیں باوجودیہ کہ عمومی خطاب میں عورتیں بھی برابر کی شریک ہیں۔ پھر بھی قرآن و حدیث میں جگہ جگہ عورتوں کو خصوصی خطاب سے مشرف فرمایا ہے۔ مندرجہ بالا حدیث بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ذکر الٰہی میں مشغول رہنا ہر مسلم مرد و عورت کے لیے گناہوں کی مغفرت اور درجات بلند ہونے کا سبب ہے اور بے شمار آیات و احادیث میں ذکر کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس حدیث میں خاص کر عورتوں سے خطاب فرمایا ہے اور اس خصوصی خطاب کی وجہ غالباً یہ ہے کہ عورتوں میں تیری میری برائی کرنے اور لگائی بجھائی کرنے کے ذریعہ فساد پھیلانے کی خاص عادت ہوتی ہے۔ عورتوں کی شاید ہی کوئی مجلس شکوہ شکایت اور غیبت وبہتان سے خالی ہوتی ہو۔ زبان خدائے پاک کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ اس کے ذریعہ جنت کے بلند درجات تک رسائی ہوسکتی ہے۔ اس مبارک عطیہ کو لایعنی باتوں اور نیکیاں برباد کرنے والی گفتگو میں لاناسراپا نقصان اور خسران عظیم ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: لَا تَکْثِرُو الْکَلَامُ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ فَاِنَّ کَثْرَۃَ الْکَلَامِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ قَسْوََۃٌ لِلْقَلْبِ وَاَنَّ اَبْعَدَ النَّاسِ